معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ذکرِ حق تشویش قلب کے ساتھ بھی مفید ہے۔ ہاں تو وہ تجربہ کی صورت یہ ہے کہ کچھ دن امیروں کے پاس رہ کر دیکھو اور کچھ دن کسی اﷲ والے کے پاس رہ کر دیکھو پھر خود فیصلہ کرلوگے کہ اطمینان کس کو حاصل ہے۔ ہاں جس اﷲ والے کی صحبت میں رہنا چاہو اپنی مناسبت اس کے ساتھ دیکھ لو جو چند دن آنے جانے اور اس کی مجلس میں بیٹھنے سے خود بخود معلوم ہوجاتی ہے کہ اس کی بات قلب میں اترتی معلوم ہوگی۔ مناسبت کا مفہوم سمجھانے کے لیے حق تعالیٰ نے احقر کو ایک مثال عطا فرمائی ہے وہ یہ کہ جب کسی کا خون کسی کے اندر ڈاکٹر چڑھاتا ہے تو پہلے دونوں کے خون کے گروپ ملاتا ہے اگر گروپ نہیں ملتے تو پھر اس خون کو نہیں چڑھاتا ۔ پس اسی طرح روح کی مناسبت کو سمجھ لینا چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ حق تعالیٰ کے راستے میں مجاہدہ کی مدت تھوڑی ہے اور راحت دائمی ہے اور گناہ کی زندگی میں لذت کی مدت تھوڑی اور تکلیف دائمی ہے۔ پس یہ تجارت خسارہ والی ہے یا نہیں خود فیصلہ اپنی عقل سے کرلے اور جلد کسی اﷲ والے کامل بندے کا دامن پکڑلے اور اپنا بُرا بھلا سب حال کہہ کر اپنے امراض روحانی کا علاج کرالے یعنی جن گناہوں کی عادت نہ چھوٹتی ہو ان سے بتا کر تدبیر معلوم کرکے عمل کرے اور ان سے دعائیں بھی کراتا رہے ۔ ان شاء اﷲ تعالیٰ! بہت جلد آپ بھی اﷲ والے بن کر دونوں جہاں میں اطمینان اور پر سکون زندگی کی نعمت سے مالا مال ہوجائیں گے۔ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مجاہدہ میں یعنی گناہ چھوڑنے میں جسم کو تکلیف ہوتی ہے مگر قلب و روح میں نور پیدا ہوتا ہے۔ ایمان کی حلاوت عطا ہوتی ہے ، اﷲ تعالیٰ کا قرب عطا ہوتا ہے ،پھر بزبان حال یہ کہو گے ؎ میں رہتا ہوں دن رات جنت میں گویا مرے باغ دل میں وہ گلکاریاں ہیں مجاہدات کے بارے میں احقر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں جو احقر نے اپنے لخت جگر مولانا محمد مظہر سلمہٗ کی تربیت و تادیب کے سلسلے میں لکھے تھے ؎