معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
تو اس دعائے بے زبانی کا نام زبانِ حال ہے اور زبانِ عشق ہے ؎ لیک عشق بے زباں روشن تر ست حق تعالیٰ کے عاشقوں کی پہچان یہی ہے کہ ان کے پاس بیٹھ کر حق تعالیٰ کی محبت میں ترقی ہو اور دنیا آنکھوں میں فانی اور بے قدر ہوجائے اور خدائے پاک پر مال و عزت ، دل و جان دینے کا شوق پیدا ہوجائے اور جان مضطر میدانِ شہادت تلاش کرنے لگے اور جہاد ِاکبر یعنی نفس کے بُرے تقاضوں کی گردن پر حکمِ الٰہی کا خنجر پیوست کرکے اپنی روح کشتۂتسلیم سر میں صد حیات تازہ کی بہار محسوس کرنے لگے۔ احقر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎ دل میں ان کی یاد کی لذت ہو اے دردِ جگر پھر ترا کیا شامِ غم اور کیا تری آہِ سحر دل تو کچھ روشن نہیں ہے تم سے اے شمس و قمر کائناتِ دل کے ہیں کچھ دوسرے شمس و قمر میں نے یہ دیکھا نہیں ملتا سکوں تیرے بغیر گر چہ حاصل ہو مجھے کل کائناتِ بحر و بر اے خدا کیا رابطہ ہے تجھ سے ان ارواح کو بے ترے پاتی نہیں جو چین با صد مال و زر آسمان دل پہ ان کے غم کے تارے ہوں اگر پھر شبِ تاریک میں بھی طے ہو منزل بے خطر گر ہے جان زندگی سے دور کوئی زندگی تلخ کردیتی ہے اختؔر تلخیٔ شام و سحر وہ تو کہیے کہ ترے غم نے بڑا کام کیا ورنہ مشکل تھا غم زیست گوارا کرنا