معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
عرض کیا کہ میں نے سبحان اﷲ کہا تھا۔ فرمایا کہ تیرا ایک بار سبحان اﷲ کہنا میرے تختِ سلیمانی سے افضل ہے کیوں کہ سلطنت تو ختم ہوجائے گی لیکن سبحان اﷲ کا نور ہمیشہ باقی رہے گا ۔ معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کا نام اور ان کا ذکر دونوں جہاں کی سلطنت سے افضل ہے ؎ خدا کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہوکر تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تختِ سلیماں تھا مجؔذوب جو وسعت میں کون و مکاں کے نہ آئے کرم سے مرے دل میں آکر سمائے اخؔتر حق تعالیٰ کے مومن کے دل میں آنے سے مراد تجلیٔ خاص اور تعلّقِ خاص کا عطا ہونا ہے ؎ اتصالے بے تکیف بے قیاس ہست ربّ الناس را باجانِ ناس تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا ہم جان گئے بس تری پہچان یہی ہے ہمہ تن ہستی خوابیدہ مری جاگ اٹھی ہر بُنِ مو سے مرے اس نے پکارا مجھ کو اصؔغر سمجھنا سہل نہیں اہلِ جہاں کو اختؔر بنامِ عشق کوئی زندگی گزرتی ہے نہ روزگار نہ اسبابِ تعیّش اس کو مگر عجیب بہاروں سے وہ گزرتی ہے