معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
جس نے دنیا میں خدا کا قرب و رضا نہ حاصل کیا اس نے دنیا میں آکر دنیا سے کچھ نہ پایا۔ افسوس کہ اہلِ آخرت کو آج کل کے عقلائے زمانہ بے وقوف سمجھتے ہیں حالاں کہ عقل کی تعریف یہ ہے کہ جو نفع و ضرر کو سمجھ سکے پھر نفع و ضرر میں فیصلہ کرسکے۔ نفعِ دائمی کے لیے ضررِ عارضی کو گوارا کرلے اور نفعِ عارضی کو ضررِ دائمی کے خوف سے ترک کردے۔ اب ان عقلاء کا حال ظاہر ہے کہ دنیا کے چند روزہ آرام کے لیے آخرت کے دائمی عذاب سے بے فکر ہیں اور عارضی نفع کو دائمی ضرر کے مقابلے میں ترجیح دے رہے ہیں ۔ پس عقل کی صحت کا فیصلہ اس تعریفِ مذکور کی کسوٹی پر خود کرلیں اور عقل کی تعریفِ مذکور بین الاقوامی تعریف ہے۔ کوئی عاقل اس کے خلاف بول نہیں سکتا ، یہ کلمات مسلمات ہیں۔ جو اپنے دل میں ایک ذرہ نور رکھتے ہیں اوراﷲاﷲکرتے ہیں اور کسی اﷲوالے کی صحبت سے نورِ باطن حاصل کرتے ہیں ان سے پوچھیے کہ کبھی ان کا ذکر چھوٹ جاتا ہے تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہے گویا بزبانِ حال یہ کہہ اٹھتے ہیں ؎ تیرے بن کیوں اندھیرا اندھیرا ہوا میری دنیا کا شمس و قمر کیا ہوا اخؔتر حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ یارِ شب را روز مہجوری مدہ جان قربت دیدہ را دوری مدہ ترجمہ:اے خدا! اپنے ان دوستوں کو جنہوں نے راتوں میں تجھے یاد کیا ہے جدائی کا دن نہ دکھا یعنی دن میں بھی ان کو لذّتِ قرب سے مسرور فرما اور جس جان نے آپ کے قرب کی لذّت چکھ لی ہے اس کو جدائی کا غم نہ دیجیے۔حکایت ایک بزرگ نے اپنے قلب میں حق تعالیٰ کے قرب کی لذّت میں کمی محسوس