معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
کی بہت روئے جنگل میں دیوانہ وار رویا کرتے اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہتے ؎ دلیا بنا بھتوا اداس مری سجنی ترجمہ:اے خدا! میرا چاول(بھات) بغیر دال کے اداس ہے یعنی میری زندگی کے (ایام ولیالی) دن و رات بغیر آپ کے بے کیف ہیں۔ پھر جب نورِ قرب عطاہوا تو بزبانِ حال فرمایا ؎ باز آمد آبِ من در جوئے من باز آمد شاہِ من در کوئے من میرا پانی میری خشک نہر میں پھر آگیا یعنی میرا شاہ پھر میرے دل کی گلی میں آگیا۔ یہ قربِ حق کی تعبیرات و عنوانات عاشقانہ ہیں جس کا مزہ اہلِ محبت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ احقر کے چندشعر ملاحظہ ہوں ؎ زندگی میری ہے تیرا ذکر و لقا ہے مری موت کہ میں ہوں تجھ سے جدا بحرِ طوفان غم ہے مخالف ہوا میری کشتی کا ہے تو ہی بس ناخدا تیرے دریائے رحمت کا ہے آسرا ورنہ اختر ہے اعمال سے بے نوا دولتِ باطنی یعنی تعلق مع اﷲ کی نعمت اور ذکر کی لذت حوادث و آلام میں بھی عاشقان ِخدا کو پُر سکون اور پُر کیف رکھتی ہے ؎ ہر لمحۂ حیات گزارا ہم نے آپ کے نام کی لذّت کا سہارا لے کر اخؔتر