معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
ہیں ۔ پس محبت کا مادہ تمام کا تمام حق تعالیٰ کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوجاتا ہے ۔ ان کی محبت بالحق ہوتی ہے یا للحق ہوتی ہے ۔ یعنی یا تو اﷲ کے ساتھ ہوتی ہے یا اﷲ کے لیے کسی سے ہوتی ہے۔ البتہ حسنِ مجاز کی طرف انجذاب ان کو قوی تر ہوتا ہے اس لیے ان کے لیے مجاہدہ بھی قوی تر ہوتا ہے اس لیے ان کا نور بھی قوی تر ہوتا ہے ۔ پھر یہ کہ اولیائے کرام مثل انبیاء معصوم نہیں ہوتے ۔ اگر احیاناً ان سے صدورِ خطا ہوتا ہے تو ان کی توبہ بھی اسی مقامِ درد سے ہوتی ہے جو عام لوگوں کی توبہ سے کہیں افضل ہوتی ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ کاش کہ مادر نزادے مر مرا یا مرا شیرے بخور دے در چرا در جگر افتادہ ہستم صد شرر در مناجاتم بہ بیں خونِ جگر گر مرا ایں بار ستاری کنی توبہ کردم من زہر ناکردنی ترجمہ:ایک بزرگ کی توبہ کا مضمون بیان فرماتے ہیں کہ اے کاش! اس گناہ سے جو صدمہ اور ندامت ہے میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا یا مجھے شیر کسی جنگل میں کھاگیا ہوتا۔ میرے جگر میں صدمہ و ندامت کی سینکڑوں چنگاریاں بھری ہوئی ہیں جس کے سبب اے خدا! آپ میری مناجات میں میرے جگر کا خون دیکھ لیجیے۔ اس مرتبہ آپ میری ستاری فرمادیجیے میں اپنی ہر نالائقی سے توبہ کرتا ہوں۔حکایت حضرت معاویہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نماز تہجد شیطان نے آپ کے پاؤں دبا کر قضا کرادی یعنی نیند گہری طاری ہوگئی، آپ نے دن میں تہجد کی قضا ادا کی۔ مسلم شریف میں یہ حدیث مروی ہے کہ: