معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
تو نے ان کی راہ میں طاعت کی لذت بھی چکھی ہاں شکست آرزو کا بھی مقامِ قرب دیکھ سرفروشی جاں فروشی دل فروشی سب سہی پی کے خونِ آرزو پھر کیف جامِ قرب دیکھ وہ نامراد کلی رشک گل شگفتہ ہے کہ اب وہ محرم راز دل شکستہ ہے اس وقت احقر کو اصغرگونڈوی کا یہ شعر نہایت لذیذ معلوم ہوتا ہے ؎ ایک ایک تنکے پر سو شکستگی طاری برق بھی لرزتی ہے میرے آشیانے سے اصؔغر ایک دفعہ ایک مشہور جریدہ میں ایک سر پھرے کا یہ مضمون پڑھا تھا کہ جتنے صوفیائے کرام عاشقانہ انداز سے کلام کہتے ہیں دراصل یہ مجاز کے شکار ہوتے ہیں مگرمحروم ونامراد ہوکر حقیقت کی آڑ میں اپنی تشنگی بجھاتے ہیں۔ واقعی چور سب کو چور سمجھتا ہے اَلْمَرْءُ یَقِیْسُ عَلٰی نَفْسِہٖ ہر آدمی اپنے ہی اوپر دوسروں کو قیاس کرتا ہے۔ اس بدفہم اور بے خبر جان محروم کو یہ نہیں معلوم کہ یہ صوفیائے کرام پھر رات دن تہجد واشراق واوابین اور تلاوت اور ہر وقت اتباعِ سنت کے غم و فکر میں کیوں گھلتے ہیں۔ اس ناشستہ رو معترض سے کوئی پوچھے کہ تجھے ان اعمالِ صالحہ کی توفیق کیوں نہیں ہوتی جو ان عاشقانِ خدا کو ہوتی ہے۔ جیسے نامرد کو لذّتِ جماع سمجھانا محال ہے اسی طرح ایسے لوگوں کو اولیائے پاک کی ارواح کے درد و محبت کے مقام کو سمجھانا مشکل ہے۔ بہرحال سوال یہ ہے کہ ہر عاشق مجاز کے اعمال و احوال پھر ان صوفیائے کرام جیسے کیوں نہیں ہوجاتے حالاں کہ کتنے ان میں نامراد ہوکر خودکشی کر گئے یا پاگل ہوگئے۔ در حقیقت بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ ان کی ارواح کو اپنی طرف جذب فرمالیتے