ونصلہ جہنم (النسائ:۱۱۵)‘‘ {جو مومنوں کے راستہ کے خلاف چلے گا ہم اس کا منہ ادھر ہی کر دیں گے اور اس کو جہنم میں داخل کر دیں گے۔} اور تمام متفقہ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حیات ہیں اور کوئی نبی خاتم النبیین کے بعد نہیں آئے گا اور مذہب کی تبلیغ کے لئے صرف امت کافی ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا: ’’والذی اوحینا الیک من الکتٰب ھو الحق مصدقالما بین یدیہ۰ ان اﷲ بعبادہ لخبیر بصیر۰ ثم اورثنا الکتٰب الذین اصطفینا من عبادنا فمنہم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات باذن اﷲ (الفاطر:۳۲)‘‘ {اور جو کتاب ہم نے تیری طرف وحی کی ہے وہ حق ہے۔ اگلی کتاب کی مصدق ہے۔ بے شک اﷲ اپنے بندوں سے باخبر ہے۔ دیکھ رہا ہے۔ پھر ہم نے کتاب کی وراثت کے لئے چند بندوں کو منتخب کر لیا۔ بعض ان میں اپنی جان پر ظلم کرنے والے تھے۔ بعض درمیانہ رو تھے۔ بعض بھلائیوں میں آگے نکل گئے۔} یعنی سبقت لے گئے۔ الغرض کتاب امت ہی کے ورثہ میں آئی۔ نبی کے ورثہ میں نہیں آئی۔ اس لئے تبلیغ کے لئے نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
سوال… حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب اس زمین پر تشریف لائیں گے تو اس وقت وہ یا صرف نبی ہوںگے یا صرف امتی ہوںگے یا نبی اور امتی دونوں ہوںگے یا نہ نبی ہوں گے نہ امتی۔ تو چوتھی صورت کہ نہ نبی ہوں گے نہ امتی۔ بالکل باطل ہے۔ کیونکہ نبی کا نبی نہ ہونا محال ہے۔ دوسری اور تیسری صورت کہ صرف امتی ہوں گے یا امتی اور نبی دونوں ہوںگے۔ یہ بھی باطل ہے۔ کیونکہ اوپر گذر چکا ہے کہ وہ امتی نہیں ہوںگے۔ اب صرف پہلی صورت باقی رہ گئی کہ وہ صرف نبی ہوںگے تو اس صورت میں خاتم النبیین، خاتم النبیین نہیں رہ سکتے۔ بلکہ خاتم النبیین حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوگئے۔
جواب… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت اور پیدائش خاتم النبیین سے پہلے ہو چکی اور وہ اب تک زندہ ہیں۔ لہٰذا پہلے پیدا شدہ نبی کا زندہ رہنا خاتم النبیین کی وفات کے بعد تک اس بات کو نہیں چاہتا کہ وہ خاتم ہو جائے۔ بلکہ خاتم النبیین وہی ہے جس کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہو اور جو پہلے پیدا ہوچکا اور زندہ رہ جائے وہ خاتم نہیں ہوسکتا۔
نوٹ: حضرت مسیح علیہ السلام دنیا میں آنے کے بعد جو تبلیغ کریں گے وہ تبلیغ درحقیقت ان کا عمل ہوگا۔ جس طرح نماز پڑھنا، روزہ ان کا عمل ہوگا۔ اسی طرح تبلیغ بھی ان کا عمل ہوگا۔ یہ نہیں ہے کہ وہ تبلیغ کے مقصد کے لئے بھیجے جائیں گے اور ایک نبی کا دوسرے نبی کی شریعت