ہوکر مرزاقادیانی کے ساتھ مزید گفت وشنید کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن پھر عوام کی خواہش کے پیش نظر آپ نے ۲۰؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو جامع مسجد میں مناظرہ کرنا منظور فرمالیا اور مرزاقادیانی کو اس کی اطلاع بھی کر دی گئی۔ بالآخر مورخہ مذکورہ کو فریقین جامع مسجد پہنچ گئے۔
میاں صاحب کی طرف سے نواب سعید الدین خان رئیس لوہارو مولوی عبدالمجید صاحب، سید بشیر حسین انسپکٹر پولیس سپرنٹنڈنٹ کی معیت میں مرزاقادیانی کے پاس گئے اور کہا کہ آپ لکھ دیجئے کہ میاں صاحب میرے دلائل سن کر تردیدی حلف اٹھا جائیں تو میں اسی مجمع میں توبہ کر لوں گا۔ مگر مرزاقادیانی نے اس کا کچھ جواب نہ دیا۔
سپرنٹنڈنٹ صاحب کافی دیر مرزاقادیانی سے گفتگو کرتے اور انہیں کسی فیصلہ کن بحث کی طرف لانے کی کوشش کرتے رہے۔ مگر مرزاقادیانی کوئی تجویز ماننے پر تیار نہ ہوئے۔ اس پر سپرنٹنڈنٹ نے فرمایا۔ اگر مرزاقادیانی آپ مسیح موعود ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ثبوت پیش کیجئے۔ فرض کرو کہ مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے تو اس حال میں سب برابر ہیں۔ آپ میں کیا خوبی ہے۔ جو دوسروں میں نہیں کہ آپ کو مسیح موعود مان لیا جائے۔ مرزاقادیانی اس سوال کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف اتنا کہا کہ میں صرف حیات وفات مسیح پر بحث کروں گا اور وہ بھی تحریری، زبانی مباحثہ کرنے کے لئے میں تیار نہیں۔ اس پر اراکین جلسہ نے کہا کہ پبلک آپ کے عقائد معلوم کرنا چاہتی ہے۔ تحریری سوال وجواب تو گھر بیٹھے بھی ہوسکتا ہے اور ہورہا ہے۔ اگر آپ اپنے دعویٰ کا ثبوت پیش نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ جلسہ ختم کر دیا جائے۔ اس وقت نواب سعید الدین صاحب لوہارو نے مرزاقادیانی سے یہ بھی کہہ دیا کہ اچھا آپ وفات مسیح کے دلائل پیش کیجئے۔ مرزاقادیانی نے جواب دیا میں صرف میاں صاحب کی زبان سے حیات مسیح کا تحریری ثبوت چاہتا ہوں۔ اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے جلسہ برخواست کرا دیا۔
نوٹ: مناظرہ مذکورہ کی روئیداد مولانا بٹالوی کے اخبار اشاعت السنہ ج۴ ص۶،۹ پر درج ہوئی تھی اور اس کے علاوہ مولوی عبدالمجید دہلوی نے الحق الصریح الثبوت حیواۃ المسیح شائع کی تھی۔ ہم نے یہ روئیداد رئیس قادیان سے بطور خلاصہ نقل کی ہے۔
۱۸…دہلی میں دوسرا مناظرہ اور مرزاقادیانی کا فرار
حضرت میاں صاحب کے نامور شاگرد مولانا محمد بشیر صاحب سہسوانی مرحوم مقیم بھوپال کو جب ان واقعات کا علم ہوا تو انہوں نے حاجی محمد احمد سوداگر دہلی کی معرفت مرزاقادیانی کو لکھا کہ مجھے آپ کی تمام شرائط اور موضوع منظور ہے۔ صرف تیسری شرط میں ذرا ترمیم کر لیجئے۔