قبلہ رخ ہوکر دعا کریں گے۔ (رئیس قادیان ج۲ ص۵۶۹تا۵۷۲مؤلفہ مولانا رفیق دلاوری)
مذکورہ بالا شرائط کے ماتحت مورخہ مذکورہ کو میدان عیدگاہ بیرون دروازہ رام باغ میں مباہلہ ہوا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ مباہلہ مذکورہ کے ایک سال تین ماہ بعد جب آتھم کی میعاد پوری ہوئی اور وہ فوت نہ ہوا تو چاروں طرف سے مرزاقادیانی پر آوازے کسے گئے۔ گالیاں دی گئیں۔ قصیدے لکھے گئے تو اس موقع پر مولوی عبدالحق صاحب غزنوی نے ایک اشتہار بعنوان اثر مباہلہ عبدالحق غزنوی برغلام احمد قادیانی شائع کیا اور اس میں مرزاقادیانی کی رسوائی اور ذلت کو مباہلہ کا اثر قرار دیتے ہوئے مرزاقادیانی کا یہ مقولہ بطور دلیل پیش کیا کہ میری سچائی کے لئے ضروری ہے کہ مباہلہ کے بعد ایک سال کے اندر کوئی نشان ظاہر ہو۔ اگر نہ ہوا تو میں جھوٹا۔
(حجتہ الاسلام ص۹، خزائن ج۶ ص۴۹، رئیس قادیان ج۲ ص۶۲۸)
اس کے جواب میں مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’یہ غلط ہے کہ کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا۔ میرے کئی ایک نشان ظاہر ہوئے۔ مرید بڑھ گئے چندہ بڑھ گیا وغیرہ وغیرہ۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۲۴۰، خزائن ج۲۲ ص۲۵۱،۲۵۲)
آخری نتیجہ
آخر یہ ہوا کہ مرزاقادیانی مولوی عبدالحق صاحب کی زندگی میں ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو انتقال کر گئے اور مولوی صاحب مرزاقادیانی کے تقریباً ۹سال بعد ۱۶؍مئی ۱۹۱۷ء تک زندہ رہے۔ اس بحث کے آخر میں ہم مرزاقادیانی کا اصول متعلق مباہلہ پیش کرتے ہیں۔ سنئے اور غور سے سنئے کہ: ’’مباہلہ کرنے والوں میں سے جو جھوٹا ہوتا ہے وہ سچے کے سامنے مر جاتا ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸، نمبر۲۷۶)
ناظرین! اسے کہتے ہیں: ’’قضی الرجل علیٰ نفسہ‘‘ ؎
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
۲۲…مرزاقادیانی کے دوسرے نشان قرآن دانی کی حقیقت
پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور مرزاقادیانی کی تفسیر نویسی
مرزاقادیانی نے علمائے کرام کے علاوہ صوفیاء اور مشائخ سے بھی چھیڑچھاڑ شروع کر رکھی تھی۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے ۲۰؍جولائی ۱۹۰۰ء کو ایک طویل اشتہار پیرمہر علی شاہ گولڑوی سجادہ نشین گولڑہ ضلع راولپنڈی کے نام دیا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے۔