پھر وہ آگے کہتا ہے: ’’میں حقیقتاً مسیح کی فطرت سے مماثلت رکھتا ہوں اور اسی فطری مماثلت کی بناء پر مجھ عاجز کو مسیح کے نام سے عیسائی فرقہ کو مٹانے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ کیونکہ مجھے صلیب کو توڑنے اور خنازیر کو قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ میں آسمان سے فرشتوں کی معیت میں نازل ہوا جو میرے دائیں اور بائیں تھے۔‘‘ (فتح اسلام ص۱۷، خزائن ج۳ ص۱۱)
جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے تصنیف (ازالہ اوہام ص۶۶، خزائن ج۳ ص۱۳۵) میں اعلان کیا۔ نور الدین نے درپردہ کہا کہ دمشق سے جہاں مسیح کا نزول ہونا تھا، شام کا مشہور شہر مراد نہیں تھا۔ بلکہ اس سے ایک ایسا گاؤں مراد تھا جہاں یزیدی فطرت کے لوگ سکونت رکھتے تھے۔
پھر وہ کہتا ہے۔ قادیان کا گاؤں دمشق جیسا ہی ہے۔ اس لئے اس نے ایک عظیم امر کے لئے مجھے اس دمشق یعنی قادیان میں اس مسجد کے ایک سفید مینار کے مشرقی کنارے پر نازل کیا۔ جو داخل ہونے والے ہر شخص کے لئے جائے امان ہے۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے منحرف پیروؤں کے لئے قادیان میں جو مسجد بنائی تھی وہ اس لئے تھی کہ جس طرح مسلمان مسجد الحرام کے حج کے لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اس مسجد کے حج کے لئے آئیں اور جس میں اس نے ایک سفید مینارہ تعمیر کیا تھا تاکہ لوگوں کو اس کے ذریعہ یہ باور کرایا جاسکے کہ مسیح کا (یعنی خدا کا) نزول اسی مینارہ پر ہوگا)
اس کا نبی ہونے کا دعویٰ
مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے گمراہ پیروؤں سے ایک شخص کو قادیان میں اپنی مسجد کا پیش امام مقرر کیا تھا۔ جس کا نام عبدالکریم تھا۔ جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے بتایا۔ عبدالکریم اس کے دو بازوؤں میں سے ایک تھا۔ جب کہ حکیم نور الدین دوسرا۔
۱۹۰۰ء میں عبدالکریم نے ایک بار جمعہ کے خطبہ کے دوران مرزاقادیانی کی موجودگی میں کہا کہ مرزاقادیانی کو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور وہ شخص جو کہ دوسرے نبیوں پر ایمان رکھتا ہے مگر مرزاقادیانی پر نہیں۔ وہ درحقیقت نبیوں میں تفریق کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے قول کی تردید کرتا ہے۔ جس نے مؤمنین کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے: ’’ہم اس کے نبیوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔‘‘
اس خطبہ کے مرزاقادیانی کے پیروؤں میں باہمی نزاع پیدا کر دیا جو اس کے مجدد، مہدی اور مسیح موعود ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ لہٰذا جب انہوں نے عبدالکریم پر تنقید کی تو اس نے اگلے جمعہ کو ایک اور خطبہ دیا اور مرزاقادیانی کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ میرا عقیدہ ہے کہ آپ اﷲ