۔ وہ ارحم الراحمین ہے۔ تمہاری موت جب آئے گی تو میں تم سے مطمئن ہوں گا اور تم پر سلامتی ہوگی۔ اس لئے بے خوف ہوکر اس میں داخل ہو۔‘‘
قادیانی فرقہ کی ہندوؤں میں منظور نظر بننے کی کوشش اور اس پر ہندوؤں کو مسرت
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۹۵) پر وہ کہتا ہے: ’’دینی مسئلوں پر مسلمان، ہندو، آریہ، عیسائی اور سکھ مقرروں کی تقریریں ہوتی ہیں۔ ہر ایک مقرر اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرتا ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے مذہب پر تنقید نہ کرے۔ اپنے دین کی تائید میں وہ جو کچھ بھی کہنا چاہئے کہہ سکتا ہے۔ مگر تہذیب واخلاق کا خیال کرتے ہوئے۔‘‘
یہ بات جاننے کے لائق ہے کہ ہندوستان میں قومی لیڈروں نے قادیانی مذہب کے تصور کا خیرمقدم کیا ہے۔ کیونکہ یہ ہندوستان کو تقدس عطاء کرتا ہے اور بطور قبلہ اور روحانی مرکز حجاز کے بجائے ہندوستان کی طرف منہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی ہمت افزائی کرتا ہے اور چونکہ یہ مسلمانوں میں ہندوستان سے متعلق حب الوطنی کو فروغ دیتا ہے۔ یا وہ ایسا سوچتے ہیں۔ پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف ہنگاموں کے دوران کچھ بڑے ہندو اخبار نے قادیانیوں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا اور ان کی حمایت میں مضامین شائع کئے اور اپنے قارئین سے کہا کہ بقیہ مسلم فرقہ کے خلاف قادیانیوں کی حمایت وتائید ایک فرض تھا اور یہ کہ پاکستان میں قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان نزاع اصل میں ایک طرف عرب رسالت اور اس کے پیروؤں اور دوسری جانب ہندوستانی رسالت اور اس کے پیروؤں کے درمیان آویزش اور رقابت تھی۔ ہندوستان میں انگریزی کے ایک مقتدر اخبار (اسٹیٹسمین) کے نام جس نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا ایک خط میں ڈاکٹر اقبال نے کہا: ’’قادیانیت محمدﷺ کی رسالت کی حریف رسالت کی بنیاد پر ایک نئے فرقے کی تشکیل کی ایک منظم کوشش ہے۔‘‘
ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہروکو جواب دیتے ہوئے جنہوں نے اپنی ایک تقریر میں تعجب ظاہر کیا تھا کہ مسلمان قادیانیت کو اسلام سے جدا قرار دینے کے لئے کیوں اصرار کرتے ہیں۔ جب کہ وہ بہت سے مسلم فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے۔ ڈاکٹر اقبال نے کہا: ’’قادیانیت نبی عربیﷺ کی امت میں سے ہندوستانی نبی کے لئے ایک نیا فرقہ تراشنا چاہتی ہے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہا: ’’قادیانی مذہب ہندوستان میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے لئے یہودی، فلسفی، اسپنوزا کے عقائد سے زیادہ خطرناک ہے۔ جو یہودی نظام کے خلاف بغاوت کر رہا ہے۔‘‘