امر کا اقرار کریں کہ مرزاقادیانی نے مسیح موعود کا چودھویں صدی کے سر پر آنا قرآن وحدیث کی طرف منسوب کر کے کذب، جھوٹ اور غلط بیانی کا ارتکاب کیا اور خلق خدا کو قرآن وحدیث کے نام پر فریب دیا ہے۔
نوٹ: اس کے بعد قادیانی مجیب نے بعض علماء کی طرف یہ مضمون منسوب کیا ہے کہ وہ بھی اس بات کے قائل تھے کہ ظہور مہدی چودھویں صدی میں ہوگا۔ پھر قاضی جی کہتے ہیں کہ ان کو بھی جھوٹا کہو۔ جواباً گذارش ہے کہ ان علماء نے بعض وجوہ سے اپنے خیال کا اظہار کیا تھا۔ ہم برملا کہتے ہیں کہ ان کا خیال غلط نکلا۔ لیکن ہم ان کو جھوٹا اس لئے نہیں کہتے کہ انہوں نے مرزاقادیانی کی طرح اس مضمون کو قرآن وحدیث کی طرف منسوب نہیںکیا تھا۔ بلکہ محض اپنے خیال کا اظہار کیا تھا۔
اس کے علاوہ مجیب صاحب نے مسیح موعود کی نسبت احادیث کے بعض الفاظ کے ابجد نکال کر مرزاقادیانی پر چسپاں کئے ہیں۔ خود مرزاقادیانی بھی بعض آیات واحادیث بلکہ اپنے نام کے حروف کے ابجد سے اپنی صداقت کا ثبوت دیا کرتے تھے۔ لیکن مرزائی جماعت سے کون پوچھے کہ ابجد کے اعدد وشمار آخر کس بناء پر دلیل بن سکتے ہیں؟ کیا یہ حجت شرعیہ ہیں؟ کیا قرآن وسنت میں اس کی طرف کوئی اشارہ ہے؟ اور کیا صحابہ اور علمائے سلف اور مجددین امت نے یہ طرز استدلال اختیار فرمایا ہے۔
لطیفہ
قاضی محمد سلیمان صاحب پٹیالویؒ نے مرزاقادیانی کے ازالہ اوہام پر تنقید کرتے ہوئے اپنی کتاب تائید الاسلام میں ابجد کے اعداد وشمار پر عجیب معلومات جمع فرمائے ہیں۔ اپ کے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر یہ اعداد بھی دلائل کا درجہ رکھتے ہیں اور غلام احمد قادیانی کے اعداد ۱۳۰۰ ہونے سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ٹھیک چودھویں صدی کے آغاز میں مسیحیت کا دعویٰ کرنے والا غلام احمد قادیانی سچا مسیح موعود ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ غلام احمد قادیانی مسیح موعود ہرگز نہیں۔ (جس کے اعداد پورے ۱۸۹۱ نکلتے ہیں اور مرزاقادیانی نے ٹھیک ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا) کی بناء پر مرزاقادیانی کو ان کے دعویٰ میں جھوٹا قرار نہ دیا جائے۔ مرزائی دوستو ؎
مشکل بہت پڑے گی برابر کی چوٹ ہے
دوسرا جھوٹ
مرزاقادیانی (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۴، خزائن ج۲۲ ص۴۹۹) پر اپنی مسیحیت کا ثبوت دیتے