دونوں کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں جو ہمیں اس بات پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم ان کی ذلتوں اور رسوائیوں کا راز طشت ازبام کریں۔ لیکن اس سے پہلے کہ ہم بتلائیں کہ کون ذلیل ورسوا ہوکر مرا ہے۔ مولانا محمد حسین بٹالوی علیہ الرحمتہ یا نور الدین مرزائی اور مرزاغلام احمد قادیانی؟ ہم اپنی حکومت اور پریس برانچ سے یہ پوچھنے کی جرأت ضرور کریں گے کہ وہ ایسے بے لگاموں کو کیوں لگام نہیں دیتے جو ملک میں فتنہ وفساد کے بیج بوکر ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس فتنہ وفساد کے نتیجہ میں ان کے گھروندے سلامت ومحفوظ رہیں گے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہ اسی وقت تک محفوظ ہیں جب تک کہ ملک محفوظ ہے۔ اگر خدانخواستہ ملک پر کوئی آنچ آگئی تو یہ بھی ان کے اثر سے امن میں نہیں رہ سکیں گے۔
ہم اپنی حکومت سے دوبارہ اپیل کریں گے کہ وہ ملک کے ان بدخواہوں پر کڑی نگرانی رکھے اور ان کی تمام ایسی تحریرات پر قدغن لگائے جن سے اسلام کے نام پر وجود میں آئے ہوئے اس دیس میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیاگیا ہو اور جن سے ملک کے امن وامان کو خطرہ لاحق ہوتا ہو۔ کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ان لوگوں کا اصل اقدام کسی مخصوص مسلمان جماعت کے خلاف نہیں بلکہ تمام مسلمانوں، راعی اور رعایا حکومت اور عوام کے خلاف ہے۔ اس دفعہ اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے ہم آئندہ اس مضمون کا علمی تجزیہ کرتے ہوئے بدلائل یہ ثابت کریں گے کہ رسوائی اور ذلت کی موت کون مرا؟ مرزاغلام احمد، نور الدین یا مولانا محمد حسین بٹالویؒ؟ ان شاء اﷲ! (بحوالہ الاعتصام مورخہ ۷؍جون ۱۹۶۸ئ)
ذلیل ورسوا … کون؟
ہم نے پچھلے شمارہ میں ایک مرزائی پرچہ کی ایک دل فگار اور منافرت انگیز عبارت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی حکومت سے یہ اپیل کی تھی کہ وہ ایسے لوگوں کا سختی سے محاسبہ کرے جو ایک اسلامی ریاست میں بستے ہوئے مسلمانوں کی عزت وآبرو پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کے اکابر علمائ، صلحاء اور مقدسات وشعائر کی گستاخی، بے ادبی اور بے حرمتی کرتے ہیں اور صرف اس جرم کی پاداش میں کہ انہوں نے حضرت محمد اکرمﷺ کے لائے ہوئے دین اور شریعت سے بغاوت کا ارتکاب کیوں نہیں کیا اور ان چیزوں کو اس قدر مطہرومقدس کیوں خیال کرتے ہیں۔جن سے رسول عربیﷺ کا تعلق، محبت اور وابستگی رہی ہے۔ اس سلسلہ میں ہم نے اس قماش کے لوگوں کی ایک نئی اور تازہ جارحیت کی نشاندہی کرتے ہوئے جو انہوں نے مسلمانوں کی ایک انتہائی معزز اور