مگر الہام میں کوئی وضاحت نہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ مرزا قادیانی کا چشمہ الہام مکدر اور گہرا ہے اور عبدالحکیم صاف اور مصفی۔
ڈاکٹر صاحب نے پھر تین سال کی مدت میں بھی کمی کردی تھی۔ چنانچہ مرزا قادیانی (چشمہ معرفت ص۳۲۱، خزائن ج۲۳ ص۳۳۶،۳۳۷) میں فرماتے ہیں کہ: ’’آخری دشمن عبدالحکیم کہتا ہے کہ مرزا میری زندگی میں ۴؍اگست۱۹۰۸ء تک مرجائے گا۔ مگر خدا نے اس کی پیش گوئی کے مقابل مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور خدا اس کو ہلاک کرے گا۔ میں اس کے شر سے محفوظ رہوں گا۔‘‘
آسمانی فیصلہ یعنی ہر دوپیشگوئیوں کا انجام
ناظرین! حق وباطل صادق اور کاذب کا معرکہ آپ کے سامنے ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ الہام کہ صادق کے سامنے شریر ہلاک ہوگا جس کی انتہائی تاریخ پہلے ۱۲؍جولائی۱۹۰۹ء پھر ۱۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک تھی۔ حرف بحرف پورا ہوا اور مرزا قادیانی کا الہام ڈاکٹر عبدالحکیم میرے روبرو تباہ وبرباد ہوگا اور خدا میری عمر کو بڑھا دے گا (افسوس! جتنی عمر کا پہلے وعدہ تھا یعنی اسی برس کے پس وپیش۔ وہ بھی پورا نہ ہوا) سراسر غلط ثابت ہوا۔ چنانچہ مرزا قادیانی ڈاکٹر صاحب کی بتائی ہوئی مدت کے اندر ہی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو بمقام لاہور بمرض ہیضہ انتقال کرگیا اور ڈاکٹر صاحب زمانہ خلافت محمود ۱۹۱۹ء میں طبعی موت سے فوت ہوئے۔ مرزائی دوستو! کیا آسمانی فیصلہ پر سرتسلیم خم کروگے؟۔
۳۰…مولانا ثناء اﷲکے ساتھ آخری فیصلہ
ناظرین! قادیان سے واپسی کے بعد مرزا قادیانی اور مولانا ثناء اﷲ میں وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہیں۔ حتیٰ کہ مرزا قادیانی نے مارچ ۱۹۰۷ء میں ’’قادیان کے آریہ اور ہم‘‘ کے عنوان سے ایک رسالہ شائع کیا اور اس کے آخر میں مولوی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’ہمارے کذب پر حلف اٹھائو۔ اور پھر اس کا انجام دیکھو۔‘‘
مولاناامرتسری کا جواب مولوی صاحب نے اس کے جواب میں اپنے اخبار اہل حدیث ۲۹؍مارچ ۱۹۰۷ء میں اعلان کیا کہ : ’’میں کذب مرزا پر قسم اٹھانے کو تیار ہوں۔‘‘ تو مرزا قادیانی نے فوراً اخبار بدر ۴؍اپریل ۱۹۰۷ء میں اعلان کردیا کہ: ’’یہ مباہلہ حقیقت الوحی شائع ہونے کے بعد ہوگا۔لیکن