کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں خدا کے حکم کو چھوڑ دوں۔ (ویسے بھی خدا کا حکم باموقعہ اور بر محل تھا) اس کے حکم کے مقابل میں کسی ذلت کی پرواہ نہیں کرتا۔ غرض حضرت صاحب نے لیکچر نہیں دیا۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج۱ ص۷۹)
ہمارا خیال ہے کہ پہلے مریدوں کی فرمائش پر منظور کر لیا ہوگا۔ لیکن جب اندازہ ہوا کہ علی گڑھ مریدوں کا ڈیرا نہیں جو چاہوں کہوں بلکہ یہاں اہل علم، وکلائ، بیرسٹر اور پروفیسر صاحبان کا مجمع ہوگا۔ ان کے سامنے تو ہر بات دلیل قویہ کے ساتھ بیان کرنی پڑے گی۔ اپنی کمزوری کے پیش نظر فیصلہ فرمالیا کہ الہام کے بہانے خلاصی کراؤ۔ اسی کمزوری سے یہ پردہ داری اچھی اور یہ بزدلی مرزاقادیانی میں عام تھی۔ پہلے خوب للکارتے۔ خیال ہوتا کہ شاید مخالف سہم کر ہی سامنے نہ آئے۔ مگر جب مخالف کو سامنے پاتے تو وضو ٹوٹ جاتا اور اس قسم کے بہانے یاد آجاتے۔
ناظرین! مولانا ثناء اﷲ کا قادیان آنا اور پیر گولڑوی کی تفسیر نویسی کا واقعہ بھی آپ کو یاد ہوگا۔
۳۴…مریدوں کی دل جوئی
قادیانی لٹریچر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی اپنے چوٹی کے مریدوں کا جن کے سہارے ان کا کام چل رہا تھا۔ خوب خیال رکھتے تھے۔ ان کی رہائش اسائش کے علاوہ ان کے کھانے کا انتظام بھی احسن طریق سے کیا جاتا تھا۔ حتیٰ کہ ان کے لئے پلاؤ زردہ مرغ اور بٹیر بھی تیار کرائے جاتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی خاطر دل کش اور دل پسند بیویوں کی فکر بھی رہتی تھی۔
روایت ملاحظہ فرمائیے:
۱… ’’ڈاکٹر میر محمد اسلم نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے کی پہلی شادی حضرت صاحب نے گورداسپور میں کرائی تھی اور رشتہ ہونے سے پہلے حضور نے ایک عورت کو گورداسپور بھیجا تھا کہ وہ آکر رپورٹ کرے کہ لڑکی شکل وصورت میں کیسی ہے اور مولوی صاحب کے لئے موزوں بھی ہے یا نہیں۔ اس عورت کو حضرت صاحب نے ام المؤمنین کے مشورہ سے مختلف باتیں نوٹ کرائی تھیں۔ مثلاً لڑکی کا رنگ کیسا ہے۔ قد کتنا ہے۔ آنکھوں میں کوئی نقص تو نہیں۔ ناک، ہونٹ، گردن، دانت، چال ڈھال وغیرہ کیسے ہیں۔ غرضیکہ بہت سی باتیں ظاہری شکل وصورت کے متعلق لکھوادی تھیں کہ ان کا خیال رہے اور واپس آکر بیان کرے۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۳ ص۲۹۶)