ہے تو اس کو ایسے طور پر ظاہر فرمایا کہ خلق خدا پر حجت ہو اور کور باطنوں اور حاسدوں کا منہ بند ہو جائے اور اگر یہ پیش گوئی تیری طرف سے نہیں تو مجھے نامرادی اور ذلت کے ساتھ فنا کر ڈال اور مجھے ہمیشہ کی لعنتوں کا نشانہ بنا۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۳ ص۱۸۶، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۱۵،۱۱۶)
حسرتناک انجام
ان تمام تصریحات کے پیش نظر ضروری تھا کہ اگر سلطان محمد اڑھائی سال میں نہیں مرا تھا تو کم ازکم مرزاقادیانی کی زندگی میں ضرور مر کر نکاح کا امکان پیدا کرتا۔ مگر قدرت خدا ملاحظہ فرمائیے کہ مرزاقادیانی تو ۱۹۰۸ء میں انتقال کر گئے اور یہ میاں بیوی دونوں آج تک (یعنی ۱۹۵۰ء تک) زندہ موجود ہیں۔ بالآخر مرزاقادیانی کی یہ دعا قبول ہوئی اور ذلت ونامرادی کے ساتھ محمدی بیگم کے نکاح کی حسرت پہلو میں لئے عدم آباد کو سدھار گئے۔ نہ ان کا رقیب مرا، اور نہ ہی سیٹ خالی ہوئی۔
ناظرین! یہ ہے اس عظیم الشان پیش گوئی کا حسرت ناک انجام۔ جس کو مرزاقادیانی نے اپنے صدق کذب کا معیار ٹھہرایا تھا اور جسے آپ نے تقدیر مبرم سے تعبیر کرتے ہوئے عدم وقوع کی صورت میں اپنے آپ کو بد سے بدتر ٹھہرایا اور اس الہام کی رجسٹری محمدی دربار میں کرائی تھی۔ مگر نتیجہ کیا نکلا کہ ؎
جو آرزو ہے اس کا نتیجہ ہے انفعال
اب آرزو یہی ہے کہ آرزو نہ ہو
ناظرین! مرزاقادیانی کا تینوں متحدیانہ پیش گوئیوں کا حال ختم ہوا اور ہرسہ الہامات کی قلعی کھل گئی اور مرزاقادیانی کا کذب روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا۔ اب ہم آگے چلتے ہیں۔
۲۱…مولوی عبدالحق غزنوی سے مباہلہ
مولانا عبدالحق غزنوی مرحوم اور مرزاقادیانی کے درمیان کافی دنوں سے نوک جھوک ہو رہی تھی۔ نوبت بایں جارسید کہ مباہلہ کی طرح پڑ گئی اور مرزاقادیانی نے مئی ۱۸۹۲ء کو حسب ذیل اشتہار شائع کیا کہ: ’’ایک اشتہار مطبوعہ ۲۶؍شوال شائع کردہ عبدالحق غزنوی میری نظر سے گذرا۔ میں ہر اس شخص سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں۔ جو مجھے کافر خیال کرتا ہے۔ لہٰذا میں اعلان کرتا ہوں کہ میں ۳،۴؍ذیقعدہ ۱۳۱۰ھ کو امرتسر پہنچ جاؤں گا اور تاریخ مباہلہ ۱۰؍ذیقعدہ اور اگر بارش وغیرہ