نوٹ: ۱… مسئلہ نبوت میں اگرچہ مرزاقادیانی اپنی عادت کے موافق ہمیشہ ہیراپھیری کرتے رہے۔ کبھی انکار، کبھی اقرار، کبھی مستقل، کبھی غیرمستقل، کبھی ظلی، کبھی بروزی، کبھی بے شریعت، کبھی باشریعت ساری عمر اسی ادھیڑبنت میں مصروف رہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اشتہار مذکورہ میں انہوں نے محدثیت سے انکار کرتے ہوئے نبوت کا دعویٰ ضرور کیا ہے۔ بلکہ ایک دفعہ آپ نے اپنے من گھڑت اصول (کہ جھوٹا نبی ۲۳سال تک زندہ نہیں رہ سکتا) کو اپنے پر چسپاں کرتے ہوئے یہاں تک فرمادیا تھا۔
’’اگر کہو کہ اس مدت میں صرف مدعی نبوت شریعہ ہلاک ہوتا ہے نہ ہر نبی تو اوّل یہ دعویٰ بلادلیل ہے۔ ماسوا اس کے یہ سمجھو بھی کہ شریعت چیز کیا ہے۔ جس نے خداتعالیٰ کی طرف سے چند امور اور نہی بطور الہام پائے۔ وہ صاحب شریعت نبی کہلائے گا۔ سو اس لحاظ سے بھی تم ملزم ہو۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی موجود ہیں اور نہی بھی۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
۲… مرزاقادیانی کا دعویٰ نبوت عجیب گورکھ دھندا ہے کہ ان کے ماننے والوں کی پہلی ہی جماعت جنہوں نے ان کو اپنی آنکھ سے دیکھا ساتھ ہوکر کام کیا۔ خلوت، جلوت میں ساتھ رہے۔ الہام ہوتے دیکھا۔ الہامات کی تشریح خود ان کی زبان سے سنی۔ وہی اس مسئلہ میں دوگروہوں میں بٹ گئے۔ ایک کہتا ہے کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ کیا، دوسرا کہتا ہے نہیں۔ ایک کہتا ہے کہ نبوت کی یہ قسم تھی دوسرا کہتا ہے نہیں یہ تھی۔ بہرحال یہ بھی اعجوبہ ہی ہے۔ کسی نبی کے ماننے والوں میں صدہا اختلافات کے باوجود اس دعویٰ میں کبھی اختلاف نہیں ہوا تھا۔
مرزاقادیانی ؎
یہ تیرے زمانے میں دستور نکلا
۲۵…سرکار انگریزی سے مرزاقادیانی کو ان کی بدزبانی پر تنبیہ
کسی شخص کے مدعی نبوت ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ کمالات انسانی کے آخری زینہ پر فائز ہوچکا ہے۔ ایک نبی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں انسانی کمالات بدرجہ اتم موجود ہوں ایک نقاد جہاں اسے منہاج نبوت پر پرکھنے کا حق رکھتا ہے۔ وہاں اسے یہ بھی حق حاصل ہے کہ اسے اچھے انسان کے معیار پر پرکھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اخلاق انسانی کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو اسے منہاج نبوت پر لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انسانی معیار سے گرے ہوئے انسان کے لئے منہاج نبوت کا نام لینا تو نبوت اور خود انبیاء کی توہین ہے۔ میٹرک فیل ہونے والے طالب علم کے متعلق یہ سوچنا کہ وہ بی۔اے ہے یا نہیں۔ کہاں کی عقلمندی ہے۔ اس باب میں