کچھ عربی الہامات کے بعد۔ ’’یعنی بابو الٰہی بخش کہتا ہے کہ تیرا حیض دیکھے یا کسی پلیدی اور ناپاکی پر اطلاع پائے۔ مگر خداتعالیٰ تجھے اپنے انعامات دکھلائے گا جو متواتر ہوںگے اور تجھ میں حیض نہیں بلکہ وہ بچہ ہوگیا۔ ایسا بچہ جو بمنزلہ اطفال اﷲ ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۱۴۳، خزائن ج۲۲ ص۵۸۱)
نوٹ:جس خدائے تعالیٰ کی شان احدیت ایسی ہے کہ نہ وہ کسی کا بیٹا ہے نہ اس کے لئے کوئی بیٹا۔ نہ بی بی۔ جن کی شان قدوسیت تمام عیوب ونقائص سے بری ہے۔ لیس کمثلہ شیٔ (یعنی ان کے مماثل کوئی چیز نہیں) جن کی صفت یکتائی ہے۔ اس ذات قادر وقیوم کے لئے کوئی ادنیٰ مسلمان بھی ایسی چیزیں ثابت کر سکتا ہے؟ کیا پھر بھی وہ مسلمان رہ سکتا ہے؟ محمد اسحق غفرلہ!
حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بدگوئیاں
۱… ’’لہٰذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پرندہ بناکر پھونکنا یہ کوئی معجزہ نہ تھا۔ بلکہ بطور لہو ولعب مسمریزم تھا۔ جس کے اشتغال کی وجہ سے وہ تکمیل ارواح میں قریب قریب ناکام رہے۔ اس کے لئے (حاشیہ ازالہ اوہام ص۳۰۳تا۳۲۲، خزائن ج۳ ص۲۵۴تا۲۶۳) تک دیکھنا چاہئے۔
۲… ’’آپ کا (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا) خاندان بھی نہایت پاک ومطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا… آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اس وجہ سے ہوکہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سرپر اپنا ناپاک ہاتھ لگائے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سرپر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے۔ سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی تھا۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱)
۳… ’’آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی۔ ادنیٰ ادنیٰ بات میں غصہ آجاتا تھا۔ اپنے نفس کو جذبات سے نہیں روک سکتا تھا۔ مگر میرے نزدیک آپ کے حرکات جائے افسوس نہیں۔ آپ تو گالیاں دیتے تھے اور یہودی ہاتھ سے کسر نکال لیا کرتے تھے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹)
۴… ’’عیسائیوں نے بہت سے معجزات لکھے ہیں۔ مگر حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہیں ہوا اور اس دن سے کہ آپ معجزہ مانگنے والوں کو گندی گالیاں دیں اور ان کو حرام