ملا کر اپنے کاہن دوستوں کو پہنچاتے ہیں۔ یہ حقیقت ان کی وحی کی ہے۔‘‘
۲… ’’اور اس کے (اﷲتعالیٰ) کلام میں شوکت اور ہیبت اور بلندی آواز ہوتی ہے اور کلام پر اثر اور لذیذ ہوتا ہے اور شیطان کا کلام دھیما اور زنانہ اور مشتبہ رنگ میں ہوتا ہے۔ اس میں ہیبت، شوکت اور بلندی نہیں ہوتی اور نہ وہ بہت دیر تک چل سکتا ہے۔ گویا جلدی تھک جاتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۴۰، خزائن ج۲۲ ص۱۴۴)
۳… ’’الہام رحمانی بھی ہوتا ہے۔ شیطانی بھی اور جب انسان اپنے نفس اور خیال کو دخل دے کر کسی بات کے استکشاف کے لئے بطور استخارہ وغیرہ توجہ کرتا ہے۔ خاص اس حالت میں کہ جب اس کے دل میں یہ تمنا مخفی ہوتی ہے کہ میری مرضی کے موافق کسی کی نسبت کوئی برایا بھلا کلمہ بطور الہام مجھے معلوم ہو جائے تو شیطان اس وقت اس کی آرزو میں دخل دیتا ہے اور کوئی کلمہ اس کی زبان پر جاری ہو جاتا ہے اور دراصل وہ شیطانی کلمہ ہوتا ہے … اور اسی بناء پر الہام ولایت یا الہام عامہ مؤمنین بجز موافقت ومطابقت قرآن کریم کے حجت نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۲۸، ۶۲۹، خزائن ج۳ ص۴۳۹)
۴… الف:’’ماسوا اس کے شیطان گنگا ہے اور اپنی زبان میں فصاحت اور روانگی نہیں رکھتا اور گنگے کی طرح وہ فصیح اور کثیر المقدار باتوں پر قادر نہیں ہوسکتا۔ صرف ایک بدبودار پیرایہ میں فقرہ دو فقرہ دل میں ڈال دیتا ہے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۳۹، خزائن ج۲۲ ص۱۴۲،۱۴۳)
ب… ’’اور اس (شیطانی الہام) پر جھوٹ غالب ہوتا ہے اور رحمانی خواب والہام پر سچ غالب۔ (اس لفظ، سچ غالب میں بڑا دھوکہ ہے تاکہ قرآن وحدیث میں اپنی من مانی تاویلوں اور اپنے جھوٹے الہام اور وحیوں کا دروازہ کھلا رہے۔ حالانکہ اگر الہام رحمانی میں جھوٹ کی بھی آمیزش ہوتو سارے احکام دین ہی مشتبہ اور مشکوک ہو جاتے ہیں)
’’اور نیز یاد رہے کہ شیطانی الہام فاسق اور ناپاک آدمی سے مناسبت رکھتا ہے۔ مگر رحمانی الہامات کی کثرت صرف ان کی ہوتی ہے جو پاک دل ہوتے اور خداتعالیٰ کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۴۰، خزائن ج۲۲ ص۱۴۳)
(اس لفظ کثرت میں بھی وہی دجل وفریب ہے)
صرف عقلی معیار حق نہیں
خود مرزاقادیانی کہتا ہے۔ ’’جاننا چاہئے کہ اس زمانہ میں اسباب ضلالت میں سے