ملک الموت کو ضد ہے کہ جاں لے کے ٹلوں
سربسجدہ ہے مسیحا کہ میری بات رہے
مگر مرزاقادیانی اور مرزائی جماعت کی تمام دعائیں ضائع اور مبارک احمد مورخہ مذکورہ کو راہی ملک عدم ہوکر مرزاقادیانی کے کذب پر آخری مہر ثبت کر گیا اور وہ ڈرامہ جو ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء سے کھیلا جارہا تھا۔ ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو ذلت اور نامرادی کے ساتھ ختم ہوا۔
دعویٰ مسیحیت
اس دوران میں مرزاقادیانی اپنی شہرت کے لئے اشتہار وغیرہ شائع کرتے رہے۔ جب دیکھا کہ مریدوں کی تعداد کافی ہوگئی ہے تو ۱۸۹۱ء میں مسیحیت موعودہ کا دعویٰ کر دیا اور دعویٰ مذکورہ کی بنیاد یوں رکھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور احادیث میں جس مسیح کی خبر دی گئی ہے وہ میں ہوں اور اس امر کو ثابت کرنے کے لئے رسالہ فتح اسلام، توضیح المرام اور ازالہ اوہام شائع کئے۔ چونکہ مرزاقادیانی کا یہ دعویٰ قرآن حدیث اور اجماع امت کے علاوہ خود ان کی اپنی پہلی تحریرات کے بھی خلاف تھا۔ اس لئے ملک میں کافی شور اٹھا۔ علمائے اسلام نے اس کے خلاف لکھنا اور تردید کرنا ضروری سمجھا اور بعض مرید بھی علیحدہ ہوگئے۔ چنانچہ مرزابشیر احمد لکھتے ہیں۔
مریدوں کو ٹھوکر
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ جب حضرت مسیح موعود دعویٰ مسیحیت شائع کرنے لگے تو اس وقت آپ قادیان میں تھے۔ پھر آپ لدھیانہ تشریف لے گئے اور وہاں سے دعویٰ شائع کیا۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ دعویٰ شائع کرنے سے پہلے آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ میں ایسی بات کا اعلان کرنے لگا ہوں جس سے ملک میں بہت شور پیدا ہوگا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ اس اعلان پر بعض مریدوں کو بھی ٹھوکر لگ گئی۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۱ ص۱۹، پرانا نسخہ ص۲۱)
۱۷…مناظرہ لدھیانہ
مولانا محمد حسین بٹالوی، مرزاقادیانی کے ہم عمر اور بچپن کے ہم سبق تھے اور مرزاقادیانی کو پبلک میں مولوی صاحب موصوف نے متعارف کرایا تھا۔ لیکن تبدیلی عقائد کی وجہ سے وہ مرزاقادیانی کے مخالف ہوگئے اور مرزاقادیانی کی تردید شروع کر دی۔ جولائی ۱۸۹۱ء میں مرزاقادیانی لدھیانہ میں جاکر اپنے عقاید کی تبلیغ اور مریدوں سے بیعت لے رہے تھے کہ