جھٹلانے اور کم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ ان مبارک اور متبرک مقامات کے مقابلہ میں قادیان کو رکھ کر نہ صرف مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی توہین کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ بلکہ دوسرے لوگوں سے بھی اس بات کے خواہاں ہیں کہ وہ قادیان ایسی نجس بستی کو بھی مکہ اور مدینہ کے ہم پلہ سمجھ لیں۔ بلکہ ان سے بھی فروتر اور اسی لئے ہی تو ان کے خلیفہ ثانی نے کہا تھا کہ اب مکہ مدینہ کی چھاتیوں کا دودھ تو خشک ہو چکا۔ جب کہ قادیان میں اس کی نہریں جاری ہیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرتا ہے: ’’یہاں (قادیان میں) کئی ایک شعائر اﷲ ہیں، مثلاً یہی علاقہ جس میں جلسہ ہورہا ہے۔ اسی طرح شعائر اﷲ میں مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ (قادیان) منارۃ المسیح شامل ہیں۔ ان مقامات میں سیر کے طور پر نہیں بلکہ ان کو شعائر اﷲ سمجھ کر جانا چاہئے۔‘‘
(تقریر مرزامحمود خلیفہ قادیان، مندرجہ الفضل قادیان مورخہ ۸؍جنوری ۱۹۳۳ئ)
حج
وہ عقائد جو مرزائیوں کو امت مسلمہ سے الگ کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے نزدیک ’’حج‘‘ قادیان کے سالانہ جلسہ میں حاضری کا نام ہے۔ چنانچہ مرزاغلام احمد قادیانی کا بیٹا اور خلیفہ محمود کہتا ہے: ’’آج جلسہ کا پہلا دن ہے اور ہمارا جلسہ بھی حج کی طرح ہے… کیونکہ حج کا مقام ایسے لوگوں کے قبضہ میں ہے جو احمدیوں کو قتل کر دینا بھی جائز سمجھتے ہیں۔ اس لئے خداتعالیٰ نے قادیان کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے… اور اس لئے جیسا حج میں رفث، فسوق اور جدال منع ہے۔ ایسا ہی اس جلسہ میں بھی منع ہے۔‘‘
(برکات خلافت ص ہ،ز، مجموعہ تقاریر مرزامحمود قادیانی)
اور ایک دوسرا قادیانی گوہر فشانی کرتا ہے: ’’جیسے احمدیت کے بغیر پہلا یعنی حضرت مرزاقادیانی کو چھوڑ کر جو اسلام باقی رہ جاتا ہے۔ وہ خشک اسلام ہے۔ اس طرح اس ظلی حج کو چھوڑ کر مکہ والا حج بھی خشک رہ جاتا ہے۔ کیونکہ وہاں پر آج کل حج کے مقاصد پورے نہیں ہوتے۔‘‘
(منقول از پیغام صلح مورخہ ۱۹؍اپریل ۱۹۳۳ئ)
اور خود غلام احمد قادیانی یوں رقمطراز ہے: ’’اس جگہ (قادیان) نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطرہ کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۵۲، خزائن ج۵ ص۳۵۲)
اور مرزامحمود قادیانی ہی ایک مرزائی کی زبانی بیان کرتے ہوئے اس کی توثیق کرتا