سناتے ہیں اور اس نے اصحاب کہف کا قصہ سنایا۔ اس نے کہا یہ ہماری عجیب نشانیوں میں سے ہیں۔ لیکن اس نے آسمان سے نزول مسیح کے بارے میں اس کی وفات کے ذکر کے بغیر کچھ نہیں کہا۔ اگر نزول کی کوئی حقیقت ہوتی تو قرآن نے اس کا ذکر ترک نہ کیا ہوتا۔ بلکہ اسے ایک طویل سورۃ میں بیان کیا ہوتا اور اسے کسی دوسرے قصے کی بہ نسبت بہتر بنایا ہوتا۔ کیونکہ اس کے عجائبات صرف اسی لئے مخصوص ہیں اور کسی دوسرے قصے میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ اسے امت کے لئے ختم دنیا کی نشانی بنادیتا۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ یہ الفاظ اپنے حقیقی معنوں میں استعمال نہیں کئے گئے ہیں۔ بلکہ اس گفتگو میں اس سے ایک مجدد عظیم مراد ہے جو مسیح کے نقش قدم پر اس کے مثیل ونظیر ہوگا۔ اسے مسیح کا نام اسی طور پر دیا گیا تھا جس طرح کچھ لوگوں کو عالم رویاء میں کسی دوسرے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۳۰، خزائن ج۷ ص۲۱۴) پر وہ کہتا ہے: ’’وہ کہتے ہیں کہ مسیح آسمان سے نازل ہوگا۔ دجال کو قتل کر دے گا اور عیسائیوں سے جنگ کرے گا۔ یہ تمام خیالات خاتم النبیین کے الفاظ کے بارے میں سوئے فہمی اور غور وفکر کی کمی کا نتیجہ ہیں۔‘‘
نزول ملائکہ کے بارے میں اس کی توضیح اور اس کا ادعا کہ وہ خدا کے بازو ہیں
(حمامتہ البشریٰ ص۶۵، خزائن ج۷ ص۲۷۳) پر وہ کہتا ہے: ’’دیکھو ملائکہ کو کہ خدا نے ان کے اپنے بازوؤں کے طور پر کیسے تخلیق کیا۔‘‘
(تحفہ بغداد ص۲۸، خزائن ج۷ ص۳۴) پر وہ لکھتا ہے: ’’اور ہم فرشتوں، ان کے مرتبوں اور درجوں پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کے نزول پر ایمان رکھتے ہیں کہ نزول انوار کی طرح ہوتا ہے۔ نہ کہ ایک انسان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل وحرکت کی طرح۔ وہ اپنا مقام نہیں چھوڑتے۔‘‘
ہندوستان میں برٹش شہنشاہیت سے وفاداری اور جہاد کی موقوفی
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵) پر مرزاقادیانی کہتا ہے: ’’میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ درحقیقت برٹش حکومت کی تائید وحمایت میں گذارا ہے۔ وہ کتابیں جو میں نے جہاد کی موقوفی اور انگریزی حکام کی اطاعت کی فرضیت پر لکھی ہیں وہ ۵۰ الماریاں بھرنے کے لئے کافی ہیں۔ یہ سبھی کتابیں مصر، شام، کابل اور یونان وغیرہ اور عرب ممالک میں شائع ہوئی ہیں۔‘‘
ایک دوسری جگہ وہ کہتا ہے۔ اپنی نوجوانی کے زمانے سے اور اب میں ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ رہا ہوں۔ میں اپنی زبان اور قلم کے ذریعہ مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی کوشش میں لگا ہوں تاکہ وہ انگریزی حکومت کے وفادار اور ہمدرد رہیں۔ میں جہاد کے تصور کو رد کرتا رہا ہوں۔ جس پر