جن سے اپنی عاجزانہ عرض کو گورنمنٹ پر ظاہر کروں کہ مجھے اس شخص کے ان خلاف واقعہ کلمات سے کس قدر صدمہ پہنچا ہے اور کیسے درد رساں زخم لگے ہیں۔ افسوس کہ اس شخص نے عملاً اور دانستہ گورنمنٹ کی خدمت میں میری نسبت نہایت ظلم سے بھرا ہوا جھوٹ بولا ہے اور میری تمام خدمات کو برباد کرنا چاہا ہے۔ خدا جھوٹے کو تباہ کرے۔‘‘ (کشف الغطاء ص ب، خزائن ج۱۴ ص۲۱۵)
گویا مرزاقادیانی نے خوب زور شور سے الہام مذکورہ کا انکار کر دیا۔ چونکہ مولانا بٹالوی کے پاس مرزاقادیانی کی کوئی تحریر متعلقہ الہام نہیں تھی۔ اس لئے انہیں خاموش ہونا پڑا اور عرصہ ۲۵سال تک اس الہام پر انکار کا پردہ پڑا رہا۔ مگر ’’نہاں ماند کجا رازے کزد سازند محفلہا‘‘ کہی ہوئی بات کو چھپانا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی رنگ میں ظاہر ہو ہی جایا کرتی ہے۔ مذکورہ الہام کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی ہوا کہ مرزاقادیانی نے انکار کیا اور دعا کی کہ جھوٹے کو خدا تباہ کرے۔ مگر ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ مرزابشیر احمد ایم۔اے نے (سیرۃ المہدی ج۱ ص۷۵) پر تسلیم کرلیا کہ حضرت صاحب کو واقعی یہ الہام ہوا تھا۔
اب ناظرین یہ بتائیں کہ مرزاقادیانی کو کیا کہیں۔ مرزائیو! یہ کیا بات ہے کہ باپ اپنے الہام سے منکر ہے اور صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ الہام واقعی ہوا تھا۔ (آخر وقت وقت کی بات ہے) ذرا سوچ سمجھ کر جواب دینا۔
۳۷…احتلام
انبیاء معصوم ہوتے ہیں۔ شیطان کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ سوتے جاگتے متوجہ الیٰ اﷲ رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے خواب بھی وحی الٰہی کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کی خوابیں اثر شیطانی سے بالکل صاف اور مصفا ہوتی ہیں۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی سے ان کے ایک مرید نے سوال کیا کہ: ’’انبیاء کو احتلام کیوں نہیں ہوتا۔‘‘ مرزاقادیانی نے فرمایا کہ: ’’چونکہ انبیاء سوتے جاگتے ناپاک خیالوں کو دل میں آنے نہیں دیتے۔ اس واسطے ان کو خواب میں احتلام نہیں ہوتا۔‘‘(سیرۃ المہدی جلد اوّل ص۱۵۷)
مرزاقادیانی کا مذکورہ بالا بیان درست ہے کہ انبیاء کے خیالات پاکیزہ ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کو احتلام نہیں ہوتا۔ ہم مرزاقادیانی کی تصدیق کرتے ہوئے ذیل کی روایت درج کرتے ہیں۔ غور سے سنئے کہ: ’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب کے خادم میاں حامد علی مرحوم کی روایت ہے کہ ایک سفر میں حضرت صاحب کو احتلام ہوگیا تھا۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج۳ ص۲۴۲)