مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخری کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینہ سے زیادہ نہیں۔ بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۵۵۶ میں درج ہے۔ مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ میں اسی طور سے ابن مریم ٹھہرا۔‘‘
تنقید
مرزاقادیانی کو مسیح موعود بننے میں کتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ مریم بنے دو سال پردہ میں نشوونما پائی۔ پھر آپ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح پھونکی گئی۔ تقریباً دس ماہ حاملہ ہونے کی تکلیف برداشت کی۔ اتنی منازل طے کرنے کے بعد ابن مریم ٹھہرے۔ گردش گردوں کیا رنگ دکھاتی ہے۔ اگر آپ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہ کرتے تو آپ کو ایسے مصائب میں مبتلا نہ ہونا پڑتا۔ مرزاقادیانی ہیں تو ایک، لیکن خود مرد (غلام احمد) خود عورت (مریم) خود بچہ (عیسیٰ) ’’خود کوزہ وخود کوزہ گرو خود گل کوزہ‘‘
جس وقت بی بی مریم علیہا السلام کے قدرتی طور پر حاملہ ہونے اور عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو مرزائی صاحبان تمام آیات قرآنیہ متعلق مسئلہ ہذا کا انکار کرتے ہوئے العیاذ باﷲ، بی بی مریم کا یوسف نجار سے نکاح بتلاتے ہیں اور لڑکے کا بغیر باپ کے پیدا ہونے کو خلاف قانون قدرت سمجھتے ہیں۔ لیکن جب مرزاقادیانی، مریم بن کر حاملہ ہوتے ہیں تو ہمارا عقل اس بات کی اصلی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا کہ مرزاقادیانی کو حمل کس طرح ہوا۔ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مرزائیوں کے عقیدہ کو متعلق عصمت بی بی مریم علیہا السلام کو واضح کر دیا جائے۔
عقیدہ مرزاقادیانی متعلق عصمت، بی بی مریم علیہا السلام
مرزاقادیانی (کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸) پر تحریر فرماتے ہیں۔ عبارت بلفظ سے درج ہے۔ ’’مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا۔ بلکہ مسیح تو مسیح، میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں۔ کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں۔ نہ صرف اس قدر بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں۔ کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں اور مریم کی وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا۔ پھر بزرگان قوم کے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا۔ بی بی مریم کا یوسف نجار سے نکاح کرنا یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔‘‘