اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتی کہ انگریزوں کی پروردہ، وظیفہ خوار اور جاسوس جماعت کو جو مسلمانوں کو تحریک آزادی (کہ جس کے نتیجہ میں پاکستان ظہور میں آیا) میں شمولیت سے باز رکھتی اور انگریزوں کی ذلہ خواری پر آمادہ کرتی رہی۔ اس طرح کی بے جامراعات سے نوازا جائے جو نہ صرف یہ کہ عام مسلمانوں کے مفادات کے منافی ہیں۔ بلکہ خود حکومت پاکستان اور ملک کے قوانین سے ٹکراتی ہیں۔ اگر مرزائی اپنے چند گماشتوں کے بل پر من مانی کارروائیاں کرسکتے ہیں تو مسلمان اپنے ملک کے حکام سے، جن کی اکثریت اوپر سے لے کر نیچے تک بفضل تعالیٰ مسلمانوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کو دی گئی خصوصی مراعات ختم کی جائیں اور اس بات کی تحقیق کی جائے کہ یہ لوگ خصوصی ملکی امور میں مداخلت بے جاکے مرتکب تو نہیں ہورہے؟ نیز ان کو ان تمام قوانین وضوابط کا پابند کیا جائے۔ جن کی پابندی پاکستان کے عام شہریوں پر لازم قرار دی گئی ہے اور ان سرکاری آفیسروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ جنہوں نے ان کو اس قسم کی رعایت دینے میں حصہ لیا ہو۔ اس سلسلہ میں محکمہ اوقاف کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مرزائیوں کی کروڑوں روپے کی وقف جائیداد کی تحقیقات کر کے انہیں اپنے قبضہ میں لے اور عام مسلمانوں کی بے اطمینانی کو دور کرے۔ (بحوالہ الاعتصام مورخہ ۶؍جون ۱۹۶۹ئ)
مرزامحمود خلیفہ قادیان
ساقی میرے خلوص کی شدت کو دیکھنا
پھر آگیا ہوں شدت دوراں کو ٹال کے
آج سے تقریباً چار ماہ پیشتر جولائی کے اوائل میں کسی دوست سے ربوہ کے ایک مرزائی پرچہ ’’الفرقان‘‘ کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں اس کے مدیر ابوالعطاء اﷲ دتہ جالندھری نے یا وہ گوئی اور کذب بیانی کے طور مارباندھے ہوئے تھے۔ اس پر اور مرزائیوں کے دیگر پرچوں کے مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے ہم نے ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ لاہور کے شمارہ نمبر۲۴، بابت مورخہ ۳؍جولائی ۱۹۷۰ء میں ایک اداریہ بعنوان امت مرزائیہ اور اہل حدیث رقم کیا جس میں ہم نے لکھا:
اہل حدیث کا اداریہ
’’ربوہ اور لاہور کے چند مرزائی پرچوں نے کچھ عرصہ سے میدان خالی سمجھ کر اہل حدیث کے خلاف ہرزہ سرائی کا اچھا خاصا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس سلسلہ میں ’’الفرقان‘‘ لاہور