گوتھوڑی سی مہلت ان کو دی۔ لیکن پھر جب غیرت خداوندی جوش میں آئی تو ان کے سروں کو اس طرح کچل دیا اور صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح ان کو اس طرح مٹادیا کہ نفرین اور لعنت کے سوا ان کا کچھ نام ونشان بھی باقی نہ رہا۔
مرزاغلام احمد کا تعارف
اس نوعیت کا ایک فتنہ اس زمانہ میں زور پکڑ رہا ہے۔ بعض بھولے بھالے آدمی دانستہ ونادانستہ اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں جو کہ قادیانیت کا فتنہ ہے۔ جس کا سرگروہ غلام احمد قادیانی ہے۔ یہ شخص صوبہ پنجاب کے ضلع گورداسپور کے ایک چھوٹا سا قصبہ قادیان کے رہنے والے حکیم مرزاغلام مرتضیٰ نامی ایک شخص کے گھر میں ۱۸۴۰ء مطابق ۱۲۶۰ھ میں پیدا ہوا۔ اس نے ابتدائے عمر میں کچھ فارسی اور عربی کی درسی کتابیں پڑھیں۔ آخر شدت تنگی معاش نے اس کو تعلم وتعلیم کے سلسلہ سے چھڑا کر سیالکوٹ عدالت میں ایک نصاریٰ کے ہاں پندرہ روپے تنخواہ کی نوکری پر مجبور کیا۔ پھر جب اس سے بھی معاشی حالت نہ سدھری تو ترقی کے خیال سے کچھ قانون انگریزی یاد کر کے مختاری کا امتحان دیا۔ بدنصیبی سے اس میں ناکام رہا۔ جب اس سے بھی کام نہ بنا تو اپنا پینترا بدلا اور اپنے کو مبلغ اسلام کی صورت میں ظاہر کیا۔ اشتہار، تصنیف وغیرہ کے ذریعہ شہرت حاصل کرنے کے درپے ہوا۔ جس کو آپ اس کے دعویٰ نبوت کا پیش خیمہ یا پہلی سیڑھی کہہ سکتے ہیں۔ سرسید احمد بانی علی گڑھ کالج اور شیعوں کے ایک مجتہد سے ملاقات کی اور آریوں سے کچھ مقابلہ کیا۔ پھر براہین احمدیہ نامی ایک کتاب چھپوانے کے لئے ہزاروں روپے کے چندے وصول کئے۔ بس تو اب عیش وعشرت کا کیا پوچھنا۔ جب منزل یہاں تک طے ہوئی بمضمون آیت ’’ان الانسان لیطغیٰ ان راہ استغنیٰ‘‘ کہ جب انسان اپنے آپ کو مستغنیٰ دیکھتا ہے تو نافرمانی اور سرکشی کو اختیار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ دوسرے کچھ اور اسباب بھی جمع ہوگئے تھے۔ جس کی تفصیل عنقریب انشاء اﷲ تعالیٰ اس کے امراض کے سلسلہ میں ناظرین کے سامنے آنے والی ہے تو ۱۸۸۸ء سے قدم ذرا آگے بڑھایا اور اپنے کو مجدد، محدث (بلاواسطہ اﷲ تعالیٰ سے کلام کرنے والا) بتانے لگا۔ پھر رفتہ رفتہ ۱۹۰۱ء سے مسیح موعود، مثیل مسیح، مسیح بن مریم بننے کا دعویٰ کیا۔ حتیٰ کہ نفس امارہ کے دھوکے سے بڑھتے بڑھتے بروزی، ظلی نبی، محمدﷺ، آدم ثانی وغیرہ کے مرتبہ تک پہنچا۔ بلکہ العیاذ باﷲ دعویٰ خدائیت میں بھی کسر باقی نہ رکھی۔ انشاء اﷲ تعالیٰ ہم آگے چل کر اس کی تفصیلات پیش کر رہے ہیں۔ حسن اتفاق سے انگریزی دانوں کی ایک بڑی جماعت بھی اس کے ساتھ ہوگئی۔ جس میں محمد علی لاہوری مترجم قرآن مجید، خواجہ کمال