لیکن مخالفین پر اتمام حجت تو انبیاء کا فرض ہوتا ہے نا۔
احمدی دوستو! غور فرماؤ کہ صاحبزادہ صاحب کس طرح مرزاقادیانی کافرار ثابت کر رہے ہیں۔ ہاں اس امر پر بھی غور فرمائیے کہ صاحبزادہ صاحب مناظرہ ترک کرنے کی ذمہ داری مولوی صاحب پر ڈالتے ہیں۔ حالانکہ بھاگے مرزاقادیانی تھے اور مولوی صاحب کے تکرار کلام کو فرار کا بہانہ کہتے ہیں۔ لیکن خود مرزاقادیانی اپنے تیسرے پرچہ کے آخر میں فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے اب زیادہ دیر دہلی رہنے کی گنجائش نہیں۔ میں مسافر ہوں۔ (واپس جانا ضروری ہے۔ ناقل) باقی تحریری بحث کا کیا ہے۔ گھر بیٹھے بھی ہوسکتی ہے۔‘‘
(الحق روئیداد مباحثہ دہلی مرتبہ مرزا ص۹۰، خزائن ج۴ ص۲۲۰)
مرزائیو! پچھلے ورق الٹ کر بتاؤ کہ تحریری مباحثہ کی شرط کس نے پیش کی تھی۔ مرزاقادیانی نے یا مولوی صاحبان نے؟ مولوی صاحب تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ مناظرہ مجمع عام میں تقریری ہوکہ وقت بھی تھوڑا صرف ہو اور پبلک بھی آپ کے عقائد سے روشناس ہو۔ یہ آپ کے مرزاقادیانی ہی تھے کہ پبلک میں آتے اور مدعا ثابت کرتے ہوئے گھبراتے اور قلمیں گھسانے کی شرط لازمی قرار دیتے تھے۔ لیکن اب وہی بات کہہ رہے ہیں جو جامع مسجد میں علماء کی طرف سے کہی گئی اور مرزاقادیانی نے قبول نہ کی تھی۔ نیز بتائیے کہ دہلی سے دوران مناظرہ بھاگ آنے کے سلسلہ میں مرزاقادیانی کی مانیں یا صاحبزادہ صاحب کی تصدیق کریں۔
ناظرین! جھوٹ کو سچ بنانا بڑا مشکل ہے۔
۱۹…میر عباس علی کی علیحدگی… میر صاحب کا مقام
میر عباس علی لدھیانوی، مرزاقادیانی کے ابتدائی مریدوں سے ہیں۔ ان کے اخلاص اور عقیدت پر مرزاقادیانی کو سب سے زیادہ اعتماد تھا اور ان کی جاں نثاروں اور قربانیوں کا تذکرہ عام طور پر کیا کرتے تھے اور ان کو اپنا ہمراز خیال کرتے تھے۔ آپ باب نمبر۹ میں پڑھ آئے ہیں کہ مرزاقادیانی اپنے مشکل اور فہم سے بالاتر الہامات کے معانی انہیں کی معرفت دریافت فرمایا کرتے تھے۔ میر صاحب موصوف کا مقام معلوم کرنے کے لئے آپ میر صاحب کے نام مرزاقادیانی کے مندرجہ ذیل ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔ جو مکتوبات مرزا جلد اوّل سے منقول ہیں۔
۱…
آپ کا گرامی نامہ ملا خداوند کریم کا کیسے شکر کیا جائے کہ اس نے محض اپنے فضل سے آپ جیسے دوست عطا فرمائے۔