صرف اشتہار اور تمہیدات میں ہی چار سو صفحات سیاہ کر دئیے۔ قیمت اور چندہ دینے والوں کی طرف سے باقی کتاب کا مطالبہ شروع ہوا اور مرزاقادیانی آج کل کرتے رہے۔ مگر جب تقاضا شدید ہوا تو آپ نے ربع صدی بعد اس کتاب کا پانچواں حصہ شائع کیا اور اس کے (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷، خزائن ج۲۱ ص۹) پر کمال جرأت سے اعلان کر دیا کہ: ’’پہلے پچاس جلد لکھنے کا ارادہ (یا وعدہ؟) تھا۔ مگر اب صرف پانچ پر اکتفا کیا جاتا ہے اور چونکہ پچاس اور پانچ میں صرف ایک صفر کا فرق ہے۔ لہٰذا وعدہ پورا ہوگیا۔‘‘
ناظرین! یہ تھا مرزاقادیانی کا پہلا کارنامہ اور ہاتھ کی صفائی۔
نوٹ: چونکہ اس کتاب میں مرزاقادیانی نے تمام بنیادی عقائد ختم نبوت، حیات مسیح، نزول مسیح وہی لکھے تھے جواہل سنت کے ہیں۔ اس لئے علماء نے اس کتاب کی تعریف فرمائی۔
۱۳…ترقی کی طرف اور قدم
۱۸۸۰ء سے لے کر ۱۸۹۰ء تک مرزاقادیانی پہلے عالم دین پھر ملہم اور مجدد کی حیثیت میں کام کرتے رہے اور غیرمذاہب پر کڑی تنقید اور دلخراش اعتراض کرتے ہوئے اپنی شہرت میں اضافہ اور مستقبل کی بنیادیں استوار کرتے رہے۔ اس دوران میں مرزاقادیانی نے اپنے ہونے والے لڑکے کے حق میں بڑے زور شور سے الہامی اعلان بھی کیا۔ مگر افسوس کہ وہ الہام سچا ثابت نہ ہوا۔ مرزائیوں میں یہ الہام مصلح موعود کے نام سے مشہور ہے۔ ناظرین تفصیل ملاحظہ فرماویں۔
سفر ہوشیار پور اور چلہ کشی
ابتداء ۱۸۸۶ء میں مرزاقادیانی اپنے دو تین مریدوں کے ہمراہ چلہ کشی کی غرض سے قادیان سے ہوشیار پور تشریف لے گئے اور طویلہ شیخ مہر علی میں قیام فرمایا اور بند مکان میں جہاں کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ چلہ کرتے رہے۔ چلہ کے خاتمہ پر آپ نے اشتہار ذیل شائع کیا۔ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۶۹،۷۰)
الہام مصلح موعود
’’خدائے رحیم وکریم وبزرگ وبرتر نے مجھے اپنے الہام میں فرمایا کہ اب تجھے رحمت کا ایک نشان دیتا ہوں۔ اسی کے موافق جو تونے مجھ سے مانگا سو میں نے تیری تضرعات کو سنا… سو تجھے بشارت ہو کہ ایک پاک اور وجیہ لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ فضل واحسان کا تجھے نشان عطا ہوتا اور فتح وظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام… خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں وہ