عجیب دعاوی
۱…
میں کبھی آدم، کبھی موسیٰ، کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۰۳، خزائن ج۲۱ ص۱۳۳)
اگر اس سے مراد تمام نبیوں کا نمونہ بننا ہے تو ایک ہی ساتھ اور ایک زمانہ میں ہے۔ پھر اس لفظ کبھی کا کیا مطلب؟ لہٰذا یہ مراد نہیں ہوسکتا تو یہ متناقض دعویٰ ہوا۔
۲… ’’سو جیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایا۔ میں آدم ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں، میں اسحاق ہوں، میں یعقوب ہوں، میں اسماعیل ہوں، میں موسیٰ ہوں، میں داؤد ہوں، میں عیسیٰ بن مریم ہوں، میں محمدﷺ ہوں، یعنی بروزی طور پر۔ (نہ معلوم یعنی کا تعلق کس کے ساتھ ہے۔ محمد اسحق غفرلہ) جیسا کہ خدا نے اپنی کتاب میں یہ سب نام مجھے دئیے اور میری نسبت ’’جری اﷲ فی حلل الانبیائ‘‘ فرمایا۔ ‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۸۴،۸۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۱)
’’جری اﷲ فی حلل الانبیائ‘‘ کا سیدھا ترجمہ تو یہ تھا کہ اﷲتعالیٰ تمام نبیوں کے جوڑوں میں چلا یعنی ظاہر ہوا۔ جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے۔ (حسب منشائے مرزا) کہ اﷲتعالیٰ تمام نبیوں کے قائم مقام ہوکر بصورت مرزاظاہر ہوا۔ العیاذ باﷲ! لیکن مرزاقادیانی کا ترجمہ دیکھئے۔ خدا کا رسول نبیوں کے قائم مقام ہوکر نبیوں کے پیرائیوں میں۔ خدا جانے یہ ترجمہ کہاں سے آیا۔
۳… ’’اور ہر ایک نبی کا نام مجھے دیا گیا۔ چنانچہ جو ملک ہند میں کرشن نام ایک نبی گذرا ہے (خدا جانے کرشن جی کی نبوت کی سند اس کو کہاں سے ملی؟) جس کو رودرگوپال بھی کہتے ہیں (یعنی فنا کرنے والا، پرورش کرنے والا) اس کا نام بھی مجھے دیاگیا ہے۔ پس جیسا کہ آریہ قوم کے لوگ کرشن کے ظہور کا ان دنوں میں انتظار کرتے ہیں وہ کرشن میں ہی ہوں۔‘‘ (صرف ایک رادھا کی ضرورت ہے) (تتمہ حقیقت الوحی ص۸۵، خزائن ج۲۲ ص۵۲۱)
نوٹ: دیکھئے یہاں حوالہ نمبر۲ میں براہین احمدیہ کو خداتعالیٰ کی کتاب بتاتا ہے۔ پھر (حقیقت الوحی ص۴، خزائن ج۲۲ ص۶۲۴) میں لکھتا ہے۔ ’’وان ہذہ الانباء مرقومۃ فی البراہین الاحمدیہ ومندرجۃ فی مواضعہا المتفرقۃ التی ہی من تصانیف