مؤقر پرچے میں شائع کرنے کی زحمت گوارہ فرمائیں گے کہ مرزاغلام احمد قادیانی سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی تاریک راتوں میں غیرمحرم عورتوں سے اپنی ٹانگیں دبوایا کرتے تھے؟ اور اگر ضرورت محسوس کریں تو اس کا نام اور پتہ بھی بتایا جاسکتا ہے۔
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ہم بارہا حکومت کو الاعتصام کے ان کالموں میں اس بات سے اگاہ کرچکے ہیں کہ: ’’انگریز نے مرزائیت کو برصغیر پاک وہند میں وجود ہی اس لئے بخشا تھا کہ یہ اسلامیان برصغیر کے اندر انتشار وافتراق کے بیج بوئیں اور یہ آج تک اپنے آقایان ولی نعمت کی تربیت اور ہدایت کے مطابق اس فریضہ سر کو انجام دے رہے ہیں اور اگر اس پر ان کی گرفت کی جائے تو واویلا اور چیخ وپکار شروع کر کے حکومت سے مدد ومدافعت کی التجائیں اور فریادیں شروع کر دیتے ہیں اور اندرون پردہ حکومت کے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل مرزائی کارندے مسلمانوں کو گزند پہنچانے اور پہنچوانے کی جدوجہد میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ جس سے پاکستان میں بسنے والی عظیم اکثریت مسلمان قوم کے اندر حکومت کے خلاف ناراضگی اور نفرت کے جذبات کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہوتا ہے اور ہم پورے یقین ووثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ صدر ایوب کی حکومت کے سنگھاسن کے ڈولنے کی ایک بہت بڑی وجہ ان کی مرزائیت نوازی اور ان کے گرد مرزائی افسروں کا جھمگھٹا بھی ہے۔ آئندہ بننے والی حکومتیں اور آنے والے حکمران شاید اس سے نصیحت حاصل کر سکیں۔‘‘ ’’ان فی ذالک لعبرۃ لا ولی الابصار‘‘ (بحوالہ الاعتصام مورخہ ۱۴،۲۱؍مارچ ۱۹۶۹ئ)
پاکستان میں مرزائی ریاست
حال ہی میں خبر آئی ہے کہ محکمہ اوقاف ان اداروں کو بھی اپنی تحویل میں لینے کے بارہ میں سوچ رہا ہے جو ہنوز اس کے سایۂ عاطفت میں نہیں آئے۔ ہمیں اس وقت اس بات سے بحث نہیں کہ محکمہ اوقاف کا یہ اقدام درست ہے یا نہیں۔ بلکہ ہم اس وقت محکمہ اوقاف کے کارپردازوں سے خصوصاً اور ارباب حکومت پاکستان سے عموماً اس سوال کا جواب چاہتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت اور اس کے قائم کردہ محکمہ اوقاف نے بلا رعایت ہرگروہ اور ہر فرقے کے دینی اداروں اور مدارس، مکاتب، مساجد اور ان کی املاک کو تو اپنی تحویل میں لے لیا اور ان کی آمدنی پر اپنے پہرے بٹھا دئیے۔ لیکن ایک مخصوص مذہب کے تمام ادارے اور اس کی تمام املاک اس حکم سے مستثنیٰ رہیںَ