واجب قرار دیا ہے کہ ہم اس کا شکریہ ادا کریں۔ لہٰذا ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کی خیرخواہی کرتے ہیں۔
اسی کتاب (الاستفتاء ص۷۸، خزائن ج۲۲ ص۷۰۴) پر لکھتا ہے: ’’پھر انگریزوں کے عہد میں خدا نے میرے والد کو کچھ گاؤں واپس کر دئیے۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۴۰، خزائن ج۷ ص۲۳۰) پر وہ لکھتا ہے: ’’ہم اس کی سرپرستی میں حفاظت وعافیت اور مکمل آزادی کے ساتھ رہتے ہیں۔‘‘
اسی کتاب میں وہ یہ بھی لکھتا ہے: ’’اور میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر ہم مسلم بادشاہوں کے ملک کو ہجرت کر جائیں تو بھی ہم اس سے زیادہ تحفظات اور اطمینان نہیں پاسکتے۔ یہ (انگریزی حکومت) ہمارے ساتھ اور ہمارے آباؤ اجداد کے ساتھ اتنی فیاض رہی ہے کہ ہم اس کی برکات کے لئے قرار واقعی شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔‘‘
وہ یہ بھی کہتا ہے: ’’میں یہ خیال رکھتا ہوں کہ مسلم ہندوستانیوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ غلط راہ پر چلیں اور اس خیرخواہ حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔ نہ ہی ان کا اس معاملہ میں کسی دوسرے کی مدد کرنا نہ ہی مخالفوں کی بدکاریوں کی الفاظ، عمل، مشورہ، ضرریا معاندانہ تدبیروں سے اعانت کرنا درست ہے۔ حقیقت میں یہ تمام کام قطعی ممنوع ہیں اور وہ جو ان کی حمایت کرتا ہے خدا اور رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور صریحاً غلطی پر ہے۔ بجائے اس کے شکر بجالانا واجب ہے اور جو انسانوں کا مشکور نہیں وہ خدا کا شکر بھی نہیں بجا لائے گا۔ محسن کو ایذا پہنچانا خباثت ہے۔ انصاف اور اسلام کے راستے سے انحراف کو وجود میں لاتا ہے اور خدا حملہ آور سے محبت نہیں کرتا۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۴۰،۴۱، خزائن ج۷ ص۲۳۰)
مرزاقادیانی قرآن میں موجود جہاد کے بارے میں تمام آیات کو نظر انداز کر گیا ہے۔ اس نے جہاد اور اس کی فضیلت پر رسول اﷲﷺ کی متواتر احادیث بھی نظر انداز کر دیں اور یہ حقیقت مسلمہ بھی کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔
قادیان کا حج اور دعویٰ کہ اس کی مسجد، مسجد اقصیٰ ہے اور وہ خود حجر اسود ہے
(اخبار الفضل شمارہ نمبر۱۸۴۸ ج۱۰، دسمبر۱۹۲۲ئ) میں محکمہ تعلیم قادیان کا ایک اشتہار چھپا۔ اس کا مضمون یہ تھا: ’’وہ شخص جو کہ مسیح موعود کے قبہ سفید کی زیارت کرتا ہے وہ مدینہ میں رسول اﷲ کے قبہ خضرا سے متعلق برکات میں شرکت پاتا ہے۔ وہ شخص کتنا بدنصیب ہے جو قادیان کے حج اکبر کے دوران خود کو اس نعمت سے محروم رکھتا ہے۔‘‘