کا انکار حضورﷺ کے فرامین کی روشنی میں اور اجماع صحابہ کرامؓ اور اجماع امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے مطلقاً کفر ہے۔ جس میں کسی رو رعایت کی گنجائش نہیں۔ یہ تو تھی عقیدہ ختم نبوت کی اسلام میں اہمیت۔ آئیے اب ہم اس عظیم مسئلہ کی حقیقت پر غور کریں۔
مسئلہ ختم نبوت کی حقیقت
شہنشاہ کائنات رب العالمین خالق السمٰوٰت والارضین اﷲ نے انسان کو اپنا خلیفہ اور اشرف المخلوقات بنایا۔ اسے اپنی نیابت بخشی اور بتا دیا کہ میری کائنات میرے تصرف میں ہے۔ اس میں میرے حکم کے بغیر پتہ نہیں ہل سکتا۔ میرا حکم اور میری حکومت زمین پر اے انسان تیرے ذریعے نافذ ہوگی۔
اس سلسلہ کی پہلی تقریب حلف وفاداری عالم ارواح میں تمام انسانوں کی ارواح سے رب العالمین نے اقرار خود لیا۔ فرمایا اے انسانو! ’’الست بربکم‘‘کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تمام انسانی ارواح نے بیک زبان جواب دیا۔ ’’بلیٰ‘‘ ہاں اے اﷲ تو ہی ہمارا رب ہے اور سب سے پہلے ’’بلیٰ‘‘ کہنے والے حضور اقدسﷺ ہیں۔
اولاد آدم کا یہ مختصر حلف اصل میں اعتراف تھا۔ اﷲ کی ربوبیت اس کی خالقیت، رزاقیت اور اس کی حکومت وحاکمیت کا، انسان دنیا میں آکر دولت کی بہتات، کثرت اشغال، من مانی زندگی، طاغوتی اثرات اور لہو ولعب کی لغو مصروفیات میں گم ہوکر جب اس عہد بندگی سے آزاد ہونے لگا تو اﷲتعالیٰ نے انبیاء ورسل اس عہد کے یاد دلانے اور احکام ربانی کی تفصیل لوگوں تک پہنچانے کے لئے بھیجے۔ جن کی تفصیل حضرت محمد رسول اﷲﷺ نے یوں بیان فرمائی۔
’’عن ابی ذرؓ عن رسول اﷲﷺ قال کان الانبیاء ماتہ الف واربعتہ وعشرین الفا وکان الرسل خمسۃ عشرو ثلث ما ئۃ رجل منہم اولہم ادم الیٰ قولہ اخرہم محمد‘‘ (حاشیہ مسامری مصری ص۱۹۳ وفی صحیح ابن حبان)
حضرت ابوذرؓ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا۔ انبیاء ایک لاکھ چوبیس ہزار ہوئے ہیں اور رسول تین سو پندرہ۔ جن میں حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے اور سب سے آخری نبی اور رسول محمدﷺ ہیں۔ یہ حدیث اسحق بن راہویہؒ، ابن ابی شیبہؒ، ابو یعلیؒ نے روایت کی ہے۔ ابن حبانؒ اور ابن حجر مکیؒ نے اس کو صحیح فرمایا ہے۔ اس حدیث میں نبی اور رسول میں جو فرق ہے اس کی طرف بھی اشارہ کیا گیا۔ اس لئے یہاں پر نبی اور رسول کا فرق بیان کرنا بھی ضروری ہے۔ جمہور اہل سنت والجماعت علماء کی تحقیق یہ ہے کہ نبی عام ہے اور رسول خاص۔