عنبری، افیون، سنکھیا، ٹانک وائن کثرت سے استعمال فرمایا کرتے تھے۔
(خطوط امام بنام غلام ص۵،۶،۳، مکتوبات احمدیہ ج۱ ص۵،۲۶، سیرۃ ج۳ ص۵۱)
۳۹…مرزاقادیانی کی سادگی
انبیاء کی زندگی دنیاوی تکلفات سے مبرا اور سادہ ہوتی ہے۔ معمولی کھانا اور سادہ لباس اٹھنا بیٹھنا جاگنا سونا تکلف سے خالی ہوتا ہے اور ان کی حقیقی توجہ لذات دنیا کی بجائے عبادات اور استغراق الیٰ اﷲ میں ہوتی ہے۔ چونکہ مرزاقادیانی کے ہاں سامان عیش کی فراوانی تھی اور خوب مزے سے زندگی کٹتی تھی۔ کھانے اور پہننے میں خوب تکلف فرماتے اور ’’سفر کے وقت سیکنڈ کلاس کا پورا کمرہ ریزرو فرمایا کرتے تھے۔‘‘ (سیرۃ المہدی ج۲ ص۱۰۱)
اس لئے مرزاقادیانی کی سادگی اور استغراق بیان کرنے میں مرزائی جماعت چند ایسی کہانیاں پیش کرتی ہے جن سے مرزاقادیانی کنددماغ اور مراقی ثابت ہوتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیے:
۱… مرزاقادیانی کا ایک دفعہ چلتے چلتے پاؤں سے جوتا نکل گیا اور انہیں معلوم ہی نہ ہوا۔ آخر بہت دور جاکر یاد آیا۔
۲… ’’ایک دفعہ ایک مرید گرگابی بطور تحفہ لے آیا۔ لیکن حضرت صاحب اس کو الٹے سیدھے پہن کر لیتے اور دائیں بائیں پاؤں کا پتہ نہ چلتا تھا۔ مجبوراً بیوی صاحبہ نے نشان لگا کر دئیے۔ مگر پھر بھی پتہ نہ چلتا تھا۔ آخر اتار کر پھینک دیا۔‘‘ (سیرۃالمہدی ج اوّل ص۶۷)
۳… ’’جراب الٹی پہن لیتے ہیں۔ ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف ہو جاتی ہے اور واسکٹ اور کوٹ پہنتے ہوئے ایک بٹن دوسرے بٹن کے ہول یعنی سوراخ میں بند کر لیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ سب بٹن ٹوٹ جاتے ہیں۔‘‘ (سجے بھی خوب ہوں گے) (سیرۃ المہدی ج۲ ص۵۸)
۴… ’’گھڑی کا ٹائم ہند سے گن کر معلوم کرتے تھے۔‘‘
(سیرۃ المہدی جلد ۱ ص۱۸۰)
’’نیز چابی کسی سے دلواتے تھے۔‘‘ (کشف الظنون ص۸۰)
۵… ’’محمود نے آپ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی۔ حضرت جب لیٹیں وہ اینٹ آپ کو چھبے۔ بالآخر آپ نے حامد علی سے کہا کہ حامد علی کئی دنوں سے میری پسلی میں درد ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شے چبھتی ہے۔ حامد علی نے تلاش کر کے وہ اینٹ نکالی۔‘‘ (سیرۃ المسیح موعود ص۴۹،۵۰)