کہ ایسا دھوکہ باز انسان نبوت مسیحیت کے قطع نظر راست باز انسان کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے؟
۲۸…مولانا ثناء اﷲ قادیان میں
اکتوبر ۱۹۰۲ء میں موضع مدبھیلوال تحصیل اجنالہ ضلع امرتسر میں مولانا ابوالوفا ثناء اﷲؒ کا مناظرہ مرزائی جماعت سے ہوا۔ مناظرہ میں امت مرزا کی کیا گت بنی۔ اسی سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ مرزائی مولویوں نے جب قادیان جاکر ’’ہڈ بیتی‘‘ سنائی تو مرزاقادیانی نے آگ بگولا ہوکر فوراً ایک کتاب اعجاز احمدی لکھ ماری۔ کتاب مذکورہ میں مرزاقادیانی نے مولانا مرحوم کو کئی قسم کی گالیاں اور لعنتیں بھیجتے ہوئے ص۱۱ پر تحریر فرمایا کہ: ’’اگر مولوی ثناء اﷲ سچے ہیں تو قادیان آکر کسی پیش گوئی کو جھوٹی ثابت کریں تو انہیں ہر پیش گوئی پر ایک سو روپیہ انعام دیا جائے گا اور آمد ورفت کا کرایہ علیحدہ مولوی ثناء اﷲ نے کہا تھا کہ سب پیش گوئیاں جھوٹی نکلیں۔ ہم ان کو دعوت دیتے ہیں اور خدا کی قسم دیتے ہیں کہ وہ اس تحقیق کے لئے قادیان آئیں۔ رسالہ نزول المسیح میں ڈیڑھ سو پیش گوئی میں نے لکھی ہے۔ تو گویا پندرہ ہزار روپیہ مولوی صاحب لے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اس وقت میرے ایک لاکھ مرید ہیں۔ پس اگر میں مولوی صاحب کے لئے ایک ایک روپیہ بھی اپنے مریدوں سے وصول کروں گا۔ تب بھی ایک لاکھ روپیہ ہو جائے گا۔ یہ ساری رقم بھی مولوی صاحب کی نظر ہوگی۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۲۳)
ناظرین! مرزاقادیانی کی اس عبارت پر دوبارہ غور کیجئے کہ ڈیڑھ سو پیش گوئی جھوٹی ہونے کی صورت میں بھی مرید مرید ہی رہیں گے اور نذرانے بھی دیں گے۔ عقیدت ہو تو ایسی ہو۔
اس کے ساتھ ہی مرزاقادیانی نے ایک اور الہام شائع کردیا کہ مولوی ثناء اﷲ پیش گوئیاں کی پڑتال کے لئے ہرگز ہرگز قادیان نہیں آئیں گے۔ (اعجاز احمدی ص۳۷)
ناظرین! غور فرمائیے کہ کس زور شور سے اعلان کیا جارہا ہے کہ مولوی صاحب ہرگز ہرگز قادیان نہیں آئیں گے۔ خیال تھا کہ قادیان ہمارا مرکز ہے۔ ہمارا گاؤں ہے اور اس جگہ ہمارا ہی اقتدار ہے۔ مولوی صاحب شاید آنے سے ڈر جائیں۔ جیسا کہ عام اصول ہوتا ہے کہ دوسرے کے گھر جاکر اس کی تردید کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مگر قربان جائیں شیر پنجاب حضرت مولانا مرحوم کے کہ آپ ان تمام خطرا ت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض اتمام حجت کے لئے مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء کو قادیان جادھمکے اور جاتے ہی مرزاقادیانی للکارا اور رقعہ لکھا کہ: