بھی رکھ لیا کرتے ہیں۔‘‘ (مسیح موعود کے حالات ص۶۷)
نوٹ: یہ حال مرزاقادیانی کے مسیح ہونے کے بعد کا ہے۔
ناظرین! ان واقعات کو غور سے پڑھئے اور اندازہ لگائیے کہ کیا اہل اﷲ اور انبیاء کا بچپن انہی مشاغل میں گذرا کرتا ہے اور کیا ان کے بچپن کے محبوب مشغلے یہی ہوا کرتے ہیں اور کیا ان واقعات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آنجناب بچپن سے ہی مراقی تھے؟
۷…مرزاقادیانی عالم جوانی میں، باپ کی پنشن وصول کرنا اور گھر واپس نہ آنا
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانہ میں حضرت صاحب تمہارے دادا کی پنشن (مبلغ سات صدروپے) وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزاامام الدین بھی چلاگیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کرلی تو آپ کو پھسلا کر اور دھوکا دے کر بجائے قادیان کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو وہ آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلاگیا۔ حضرت صاحب اس شرم کے مارے گھر نہیں آئے۔ بلکہ سیالکوٹ پہنچ کر ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ (۱۵روپے ماہور) پر ملازم ہوگئے۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج اوّل ص۴۳)
واقعہ مذکور پر اہم تبصرہ
مرزائی دوستو! مرزاقادیانی کی ۲۴،۲۵سال کی عمر میں باپ کی نافرمانی اور خیانت کی وجہ بتاسکتے ہو؟ نیز بتائیے کہ مرزاامام الدین آخر کس اعتماد کی بناء پر مرزاقادیانی کے پیچھے گیا تھا اور مرزاقادیانی نے اسے سستے زمانہ میں جبکہ گندم ۸؍آنے من، گوشت ، ایک آنہ سیر، گھی، ۴؍آنے سیر بتایا جاتا ہے۔ سات سو روپے کی خطیر رقم کہاں اور کس مصرف میں خرچ کی تھی؟ غور سے سنو۔ تمہاری اسی ایک روایت نے مرزاقادیانی کے کیریکٹر کو الم نشرح کر دیا ہے۔ کیا اہل اﷲ اور شریف نوجوانوں کا یہی حال ہوتا ہے۔
اس بات پر بھی غور کیجئے کہ مرزاامام الدین مرزاقادیانی کو ۲۵؍سال کی عمر میں کس طرح پھسلا کر لے گیا۔ کیا مرزاقادیانی بچے تھے؟ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ امام الدین نے مرزاقادیانی کو مندرجہ ذیل مصرعہ سنا کر پھسلایا ہوگا ؎
بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
زندگانی گر رہی تو نوجوانی پھر کہاں