اور مرزامحمود احمد خلیفہ قادیانی نے اپنی جماعت کو ایسے افراد کی ملاقات پر انگیخت کرتے ہوئے کہا: ’’پھر حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے صحابہ سے ملنا چاہئے۔ کئی ایسے ہوں گے جو پٹھے پرانے کپڑوں میں ہوںگے اور ان کے پاس سے کہنی مار کر لوگ گزر جاتے ہوںگے۔ مگر وہ ان میں سے ہیں جن کی تعریف خود اﷲتعالیٰ نے کی۔ ان سے خاص طور پر ملنا چاہئے۔‘‘ ()
رہی بات امت کی تو خود مرزاقادیانی اپنی امت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’میری امت کے دو حصے ہوںگے۔ ایک وہ جو مسیحیت کا رنگ اختیار کریں گے اور یہ تباہ ہو جائیںگے اور دوسرے وہ جو مہدویت کا رنگ اختیار کریں گے۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان مورخہ ۲۶؍جنوری ۱۹۱۶ئ)
اور اسی طرح وہ خود بھی اپنی الگ شریعت کا اقرار کرتا ہے: ’’یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امرونہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا اور میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے۔ جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ان ہذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم وموسیٰ‘‘ یعنی قرآنی تعلیم تورات میں بھی موجود ہے۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۶)
پچھلی تحریرات سے اس بات کو تو آپ نے جان ہی لیا ہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد اور مرزائی عقائد میں کس قدر اختلاف اور تضاد ہے اور کس طرح مرزائی مسلمانوں سے الگ ایک مستقل اور جدید امت ہیں۔ جن کی اپنی شریعت اپنی کتاب، اپنا دین اور خداوند تعالیٰ کے بارہ میں اپنے مخصوص نظریات ہیں۔ اب ہم انکے دیگر جداگانہ معتقدات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
مکہ مکرمہ اور قادیان
اس وقت ہم مرزائیوں کے قادیان، یعنی اس بستی کے بارہ میں جہاں متنبی قادیانی پیدا ہوا عقائد کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ بستی مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کی مانند بلکہ ان سے بھی افضل ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی زمین حرم ہے۔ اس میں شعائر اﷲ ہیں اور وہاں تجلیات وبرکات ربانی کا نزول ہوتا ہے اور اس میں ایک ایسا قطعہ زمین بھی ہے جو حقیقتاً جنت کا ایک ٹکڑا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ قادیان میں ایک ایسا مقبرہ ہے جہاں خود محمد رسول اﷲﷺ سلام پڑھتے ہیں۔ نیز مساجد قادیان، مسجد نبویؐ، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کا مقابلہ کرتی ہیں۔ بلکہ یہ خود پوری کی پوری بستی ہی مسلمانوں کے قبلہ وکعبہ کی ہمسر ہے۔ چنانچہ ایک دریدہ دہن مرزائی اخبار الفضل