ہی بیٹھ کر فارغ ہوئے اور پھر اٹھ کر لیٹ گئے اور میں پاؤں دباتی رہی۔ مگر ضعف بہت ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ایک اور دست آیا اور پھر آپ کو ایک اور قے آئی۔ جب آپ قے سے فارغ ہوکر لیٹنے لگے تو انتا ضعف تھا کہ آپ پشت کے بل چارپائی پر گر گئے اور آپ کا سر چارپائی کی لکڑی سے ٹکرایا اور حالت دگرگوں ہوگئی۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۱)
اور پھر اسی پیغام صلح میں شائع ہوا کہ: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کی موت کے وقت ان کے منہ سے پاخانہ نکل رہا تھا۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ ۳؍مارچ ۱۹۳۹ئ)
اب بتلائیے کہ رسوائی اور ذلت کی موت کون مرا؟ مرزائی نورالدین بھیروی، مرزاغلام احمد قادیانی یا حضرت مولانا محمد حسین بٹالویؒ؟
اس لئے ہم نے کہا تھا کہ جو لوگ مرزاقادیانی کے مخالفین پر اس قسم کے گھٹیا، بے بنیاد اور جھوٹے الزام تراش کر اپنے حواریوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے ساتھیوں کے دوست نہیں۔ بلکہ دشمن ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی ذلتوں اور رسوائیوں کو ان لوگوں کے سامنے بے نقاب کیا جائے جو پہلے اس سے بے خبر ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ مختصر تحریر جو ہنوز تشنہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے فکر وعبرت کے کافی سامان مہیا کر دے گی۔ (بحوالہ الاعتصام مورخہ ۱۴؍جون ۱۹۶۸ئ)
مرزاغلام احمد قادیانی کا دعویٰ
مرزائیوں کی لاہوری پارٹی کے امیر صدرالدین صاحب کا ایک بیان مرزائی ترجمان پیغام صلح مورخہ ۱۲؍جون ۱۹۶۸ء میں شائع ہوا ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے اور اپنی جماعت کے عقائد بیان کئے ہیں کہ: ’’احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور اس بات پر محکم یقین رکھتی ہے کہ حصور نبی کریمﷺ خاتم النبیین ہیں اور جو شخص حضورﷺ کو خاتم النبیین یقین نہیں کرتا اس کو بے دین سمجھتی ہے اور اس کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتی ہے اور جو شخص حضورﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے اس کو لعنتی گردانتی ہے۔‘‘
اور آگے چل کر کہتے ہیں: ’’احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور یہ اعتقاد رکھتی ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی رئیس قادیان موجودہ دور کے مجدد ہیں۔‘‘
(پیغام صلح شمارہ نمبر۲۲،۲۳ ج۵۶، مورخہ ۱۲جون ۱۹۶۸ئ)
اس بات سے قطع نظر کہ لاہوری مرزائیوں کے اصل عقائد کیا ہیں اور جناب صدر