ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ غیر کے کفر کو نقل کرنا کفر نہیں۔ پھر ان باتوں کی نقل کے بغیر لوگوں کو ان اباطیل پر مطلع کرنے کی کوئی صورت بھی نہیں۔ ’’نستغفر اﷲ ونتوب الیہ‘‘ تو ’’کلا وحاشا‘‘ ہم ہرگز اپنی زبان قلم کو ان خرافات سے آلودہ نہ کرتے۔ ہم ان باتوں کو نقل کر کے ناظرین کے سامنے اس لئے پیش کر رہے ہیں کہ ناظرین خود غور کریں کہ جس کے یہ حالات اور یہ اوصاف وافعال واقوال ہوں۔ اس کا نبی ورسول ہونا بھی تو بہت دور کی بات ہے۔ ایک ادنیٰ مؤمن بلکہ ایک صحیح الدماغ انسان کہلانے کا مستحق بھی ہے کہ نہیں۔
لہٰذا یہاں پر نہ ختم نبوت کی تحقیق وتفتیش کی ضرورت ہے نہ وفات عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر بحث کی کوئی حاجت، بھلا جو شخص ادنیٰ مؤمن ہونا تو درکنار ایک باقاعدہ صحیح العقل انسان نہیں بن سکتا۔ اس کو ان چیزوں سے کیا سروکار؟ غالب یہی ہے کہ لوگوں کی توجہ کو اپنی حقیقت کی تفتیش وتحقیق سے پھیرنے کے لئے یہ فضول مباحث بیچ میں لائے گئے۔ واﷲ اعلم!
ہم پہلے کچھ باتیں بطور تمہید قارئین کرام کے گوش گذار کرتے ہیں تاکہ آگے چل کر مرزاقادیانی کی باتوں کے متعلق فیصلہ آسان ہو۔
نوٹ: یاد رہے کہ فرقہ قادیانی کے دوگروہ ہیں۔ ایک قادیان والے جو اس کو مستقل نبی مانتے ہیں۔ ان کو قادیانی گروہ اور دوسرے لاہور والے جو اس کو مجدد اور بروزی وظلی نبی مانتے ہیں۔ ان کو لاہوری گروہ کہتے ہیں۔
الہام ربانی اور الہام شیطانی میں فرق
۱… خود مرزاقادیانی کہتا ہے۔ ’’بلکہ اکثر نادان لوگ شیطانی القاء کو بھی خدا کا کلام سمجھنے لگتے ہیں اور ان کو شیطانی اور رحمانی الہام میں تمیز نہیں۔ پس یاد رہے کہ رحمانی الہام اور وحی کے لئے اوّل شرط یہ ہے کہ انسان محض خدا کا ہو جائے اور شیطان کا کوئی حصہ اس میں نہ رہے۔ کیونکہ جہاں مردار ہے۔ ضرور ہے کہ وہاں کتے بھی جمع ہو جائیں۔ اسی لئے اﷲتعالیٰ فرماتا ہے۔ ہل انبئیکم علیٰ من تنزل الشیاطین۰ تنزل علیٰ کل افاک اثیم‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۳۸، خزائن ج۲۲ ص۱۴۲)
پوری آیت یہ ہے کہ: ’’یلقون السمع واکثرہم کاذبون (الشعرائ)‘‘ {میں بتلادوں کس پر اترتے ہیں شیطان۔ اترتے ہیں جھوٹے گنہگار پر۔ لاڈالتے ہیں سنی ہوئی بات اور بہت ان میں جھوٹے ہیں۔} ترجمہ شیخ الہندؒ اس پر حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں۔ ’’یعنی شیاطین کوئی ایک آدھ ناتمام بات امور غیبیہ جزئیہ کے متعلق جوسن بھاگتے ہیں۔ اس میں سو جھوٹ