ڈاکٹر محمد اقبال عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کے اسلام کے اجتماعی ڈھانچے اور امت مسلمہ کے اتحاد کے محافظ کے طور پر قائل تھے۔ وہ اس کے بھی قائل تھے کہ اس عقیدہ کے خلاف کوئی بھی بغاوت کسی بھی رواداری یا صبر وتحمل کی مستحق نہیں تھی۔ کیونکہ یہ اسلام کی رفیع الشان عمارت کی بنیاد پر ضرب پہنچا کہ منہدم کرنے والی کلہاڑی کا کام کرتی ہے۔ اسٹیٹسمین کے نام اپنے مذکورہ بالا خط میں انہوں نے لکھا: ’’یہ عقیدہ کہ محمدﷺ خاتم النبیین ہیں۔ ایک بالکل صحیح خط فاصل ہے۔ اسلام اور ان دیگر مذاہب کے درمیان جن میں خدا کی وحدانیت کا عقیدہ مشترک ہے اور جو محمدﷺ کی رسالت پر متفق ہیں۔ مگر سلسلہ وحی جاری رہنے اور رسالت کے قیام پر ایمان رکھتے ہیں۔ جیسے ہندوستان میں برہمو سماج۔ اس خط فاصل کے ذریعے یہ طے کیا جاسکتا ہے کہ کون سا فرقہ اسلام سے متعلق ہے اور کون سا اس سے جدا ہے۔ میں تاریخ میں کسی ایسے مسلم فرقے سے ناواقف ہوں جس نے اس خط کو پار کرنے کی جرأت کی۔‘‘
مرزابشیرالدین قادیانی ابن مرزاغلام احمد قادیانی خلیفہ نے اپنی کتاب (آئینہ صداقت ص۳۵) میں کہا ہے: ’’ہر وہ مسلمان جس نے مسیح موعود کی بیعت نہیں کی۔ خواہ اس نے ان کے بارے میں سنا یا نہیں۔ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
یہی بیان اس نے عدالت کے سامنے دیا اور کہا: ’’ہم مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن غیراحمدی (یعنی غیر قادیانی) ان کی نبوت پر ایمان نہیں رکھتے۔ قرآن کہتا ہے کہ جو کوئی بھی نبیوں میں سے کسی نبی کی نبوت سے انکار کرتا ہے وہ کافر ہے۔ چنانچہ غیراحمدی کافر ہیں۔‘‘
خود مرزاقادیانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کہا تھا: ’’ہم ہر معاملے میں مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ اﷲ میں، رسول میں، قرآن میں، نماز میں، روزہ میں، حج میں اور زکوٰۃ میں۔ ان سبھی معاملوں میں ہمارے درمیان لازمی اختلاف ہے۔‘‘
(الفضل مورخہ ۳۰؍جولائی ۱۹۳۱ئ)
ڈاکٹر اقبال کے مطابق قادیانی اسلام سے سکھوں کی بہ نسبت زیادہ دور ہیں جو کہ کٹر ہندو ہیں۔ انگریزی حکومت نے سکھوں کو ہندوؤں سے جدا گانہ فرقہ (غیر ہندو اقلیت) تسلیم کیا ہے۔ حالانکہ اس اقلیت اور ہندوؤں میں سماجی، مذہبی اور تہذیبی رشتے موجود ہیں اور دونوں فرقے کے لوگ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں۔ جب کہ قادیانیت مسلمانوں کے ساتھ شادی ممنوع قرار دیتی ہے اور ان کے بانی نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھنے کا بڑی سختی سے حکم دیتے ہوئے کہا: ’’مسلمان حقیقت میں کھٹا دودھ ہیں اور ہم تازہ دودھ ہیں۔‘‘