مرزاقادیانی نے اپنی بریت کے لئے عدالت میں بیان دیا کہ ہماری پیش گوئی صرف آتھم صاحب کے لئے تھی۔ کل متعلقین مباحثہ کی بابت پیش گوئی نہ تھی۔
(مرزاقادیانی کا عدالتی بیان مورخہ ۱۳؍اگست ۱۸۹۷ئ)
سچ ہے ؎
عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے
پیش گوئی کی بنیاد
مرزاقادیانی کے اصل الہام میں پیش گوئی کی بنیاد ڈپٹی آتھم کا حضرت مسیح کو خدا بنانا تھا اور الفاظ بالکل صاف تھے کہ جو فریق عاجز انسان کو خدا بنارہا ہے ۱۵ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ لیکن جب پندرہ ماہ بخیر وخوبی ختم ہوگئے تو مرزاقادیانی نے یہ تاویل بلکہ تحریف کی کہ پیش گوئی کی بنا یہ تھی کہ: ’’آتھم نے آنحضرتﷺ کودجال کہا تھا۔‘‘
(کشتی نوح ص۶، خزائن ج۱۹ ص۶)
اور پھر آتھم کا رجوع ثابت کرنے کے لئے کہہ دیا کہ: ’’اس نے عین جلسہ مباحثہ پر ستر معزز آدمیوں کے روبرو آنحضرتﷺ کو دجال کہنے سے رجوع کیا۔‘‘ (حوالہ مذکور)
مقصد اس تاویل سے یہ تھا کہ آتھم صاحب نے نہ تو عاجز انسان کو خدا کہنے سے رجوع کیا اور نہ ہی بسزائے موت ہاویہ میں گرے۔ ان حالات میں الہام کی لاج رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ الہام کی بنیاد ہی بدل دی جائے اور رجوع ثابت کیا جائے۔
ہمارا سوال
لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پیش گوئی کی بناء مسیح کو خدا بنانا نہیں تھا۔ بلکہ آتھم کا آنحضرتﷺ کو دجال کہنا تھا تو اس کا ذکر اصل الہام میں کیوں نہیں اور جب اس نے عین جلسہ مباحثہ میں ستر معزز آدمیوں کے سامنے آنحضرتﷺ کو دجال کہنے سے رجوع کر لیا تو الہام کو اسی وقت منسوخ کیوں نہ کر دیا گیا اور پندرہ ماہ تک اس کی موت کے لئے وظیفے اور بددعائیں کیوں کرائی گئیں اور اس کے بعد آتھم کی موت بلکہ اپنی موت تک مرزاقادیانی کی یہ حالت کیوں رہی۔
کہوں کیا دل کی کیا حالت ہے ہجریار میں غالب
کہ بے تابی سے ہراک تار بستر خار بستر ہے