رجوع نہیں انکار
مرزاقادیانی نے کشتی نوح میں آتھم صاحب کا آنحضرتﷺ کو دجال کہنے سے رجوع بیان کیا ہے۔ لیکن اسی واقعہ کو اپنی مشہور کتاب (اعجاز احمدی ص۲،۳، خزائن ج۱۹ ص۱۰۸،۱۰۹) پر ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ: ’’آتھم کو ستر آدمیوں کے روبرو سنادیا گیا تھا کہ سبب اس پیش گوئی کا یہی تھا کہ تم نے ہمارے نبیﷺ کو دجال کہا تھا۔ سو تم اگر اس لفظ سے رجوع نہ کرو گے تو پندرہ ماہ میں ہلاک کئے جاؤ گے۔ سو آتھم نے اسی مجلس میں رجوع کیا اور کہا کہ معاذ اﷲ میں نے آنجناب کی شان میں ایسا لفظ کوئی نہیں کہا۔‘‘
مرزائی دوستو! کیا یہ رجوع ہے یا انکار؟ آتھم صاحب تو آنحضرتﷺ کو دجال کہنے سے انکار کرتے ہیں اور آپ کے حضرت اقدس اس کو رجوع یعنی توبہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیا آپ کی لغت میں رجوع اور انکار ایک ہی حقیقت کے دونام ہیں۔
مرزاقادیانی ؎
ہم بھی قائل ہیں تیری نیرنگی کے یاد رہے
او زمانے کی طرح رنگ بدلنے والے
ہاویہ یا موت (تاویل نمبرسوم)
الہام کے مطابق رجوع نہ کرنے کی صورت میں آتھم صاحب کو ۱۵؍ماہ میں ہاویہ یعنی دوزخ میں گرنا چاہئے تھا۔ چونکہ دوزخ میں داخلہ سے قبل موت ضروری ہے۔ اس لئے مرزاقادیانی نے اس الہام کی تشریح آتھم صاحب کو یہی سنائی کہ جو فریق خداتعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے (اور عاجز انسان کو خدا بنارہا ہے) وہ آج کی تاریخ سے پندرہ ماہ تک بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہرسزا اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔
لیکن جب آتھم صاحب میعاد مذکورہ میں نہ مرے تو مرزاقادیانی نے یہ تاویل کر دی کہ ہمارے الہام میں موت کا لفظ نہیں۔ بلکہ ہاویہ میں گرنے کا ذکر تھا۔ موت کا لفظ ہماری اپنی تشریح تھی۔ سو آتھم ہمارے الہام سے ڈرتا رہا۔ گھبراہٹ کا اظہار کرتا رہا اور اپنی حفاظت کے لئے مختلف شہروں میں گھومتا پھرتا رہا اور اس کے دل پر رنج وغم اور بدحواسی طاری رہی۔ یہی اس کا ہاویہ تھا اور ہمارا الہام سچا ہے۔ (مفہوم انوار الاسلام ص۵، خزائن ج۹ ص۵)