کچھ نہ ہوا
مرزاقادیانی ۱۵ماہ تک آتھم صاحب کی موت کے لئے چشم براہ رہے۔ ان کی موت کے لئے بددعائیں اور وظیفے کرتے کراتے رہے۔ حتیٰ کہ چنے کے دانوں پر سورۂ فیل کا وظیفہ پڑھایا اور وہ دانے غیر آباد کنوئیں میں ڈالے گئے اور پندرھویں ماہ کی آخری رات کو بوڑھوں، بچوں اور عورتوں سے رات بھر آتھم کی موت کے لئے دعائیں کرائی گئیں۔ گویا مرزاقادیانی نے یہ پندرہ ماہ اس حال میں گذارے ؎
ہمارا شغل ہے راتوں کو رونا یاد دلبر میں
ہماری نیند ہے محو خیال یار ہوجانا
لیکن مرزاقادیانی کا الہام نہ پورا ہونا تھا نہ ہوا۔ لیکن مرزاقادیانی کے دجل وفریب کی انتہاء دیکھئے کہ اتنا زور دار الہام غلط ہونے پر نہ شرمسار ہوئے نہ تائب۔ بلکہ اپنے ہی الہام میں تاویلات پر کمر بستہ ہوگئے اور جھوٹ کو سچ کرنے کے لئے تیرہ سال یہی شغل فرماتے رہے۔
نمبروار تاویلیں فریق سے مراد کیا ہے
اوّل… ۱۵ماہ کے دوران ڈاکٹر کلارک (آتھم صاحب کی طرف سے مناظرہ کے پریذیڈنٹ) کے ایک مخلص دوست پادری رائٹ وفات پاگئے تو مرزاقادیانی نے موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے یہ تاویل کر دی کہ الہام میں فریق سے مراد صرف آتھم ہی نہیں بلکہ وہ تمام جماعت ہے جو اس مباحثہ میں آتھم صاحب کی معاون تھی۔ (نور الاسلام ص۲، خزائن ج۹ ص۲)
پھر پادری رائٹ صاحب کی وفات کو اس الہام کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹر کلارک اور اس کے دوستوں کو اس کی وفات سے صدمہ پہنچا اور وہ بے حد پریشان ہوئے ہیں۔ گویا وہ ہاویہ میں پڑ گئے۔
اس مقام پر تو مرزاقادیانی نے فریق کے لفظ کو وسعت دے کر مباحثہ کے تمام متعلقین بلکہ ان کے دوستوں کو بھی اس میں شامل کر لیا۔ لیکن ۱۸۹۷ء میں جب ایک نوجوان عبدالحمید پر ڈاکٹر کلارک پر قاتلانہ حملہ کے سلسلہ میں ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا اور مرزاقادیانی بھی عدالت میں طلب کئے گئے۔ کیونکہ ڈاکٹر کلارک کا بیان یہ تھا کہ یہ حملہ مرزاقادیانی کے ترغیب دلانے پر ہوا ہے۔ چونکہ میں مباحثہ میں آتھم صاحب کے فریق میں شامل تھا۔ اس لئے مرزاقادیانی میرا قتل اپنے الہام کی سچائی کے لئے مفید خیال کرتے ہیں تو