اطلاع ایک ہی بات ہے۔ وہ اس مضمون کو کبھی ایک لفظ میں کبھی دوسرے میں اور کبھی دونوں میں ادا فرماتے ہیں۔ حقیقت الوحی کی اسی متنازعہ عبارت میں مرزاقادیانی اپنے لئے کثرت مکالمہ مخاطبہ کے علاوہ بکثرت امور غیبیہ کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ لیکن اسی کتاب کے (تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳) میں اپنی نبوت کے مخالفین سے فرماتے ہیں کہ: ’’میری نبوت سے مراد صرف مکالمت ومخاطبت الٰہیہ ہے جو آنحضرتﷺ کی اتباع سے حاصل ہے۔ سو مکالمہ مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی۔ یعنی آپ لوگ جس امر (شے) کا نام مکالمہ مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔‘‘
دیکھئے قاضی صاحب! یہاں آپ کے حضرت صاحب اپنے لئے صرف کثرت مکالمہ مخاطبہ کا ذکر کرتے ہیں اور اسی کا نام نبوت رکھتے ہیں۔ لیکن آپ کثرت مکالمہ مخاطبہ کو محدثیت اور نبوت کے لئے کثرت علوم غیبیہ کو شرط قرار دیتے ہیں اور مرزاقادیانی کی حمایت میں ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مدعی سست اور گواہ چست کا کردار اداکررہے ہیں۔
اور سنئے! مرزاقادیانی اسی کتاب کے (ضمیمہ ص۶۴، خزائن ج۲۲ ص۶۸۹) پر فرماتے ہیں کہ: ’’ما غنی اﷲ من نبوتی الا کثرۃ المکالمۃ والمخاطبۃ ولعنۃ اﷲ علیٰ من اراد فوق ذالک‘‘ یعنی میری نبوت سے اﷲتعالیٰ کی مراد صرف کثرت مکالمہ مخاطبہ ہے۔ جو اس سے زیادہ کا خیال کرے اس پر خدا کی لعنت ہو۔
نوٹ: مرزاقادیانی نے دیوانہ بکار خویش ہشیار کاکردار کس عمدگی سے ادا فرمایا ہے کہ مکالمہ مخاطبہ اور نبوت ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ گویا ؎
چمن والوں نے شبنم، کہہ کے پردہ رکھ لیا ورنہپسینہ آگیا تھا گل کو فریاد عنادل پر
مرزائی دوستو! آپ کے قاضی صاحب نے مرزاقادیانی کو ہمارے الزام سے بچانے کے لئے کہا تھا کہ مجدد سرہندی کی کتاب سے مرزاقادیانی نے ایک ہی حوالہ میں خیانت نہیں بلکہ یہ مختلف مضامین کے دو حوالے ہیں اور اپنے دعویٰ کی بنیاد اس امر کو قرار دیا تھا کہ محدث والے حوالہ میں محض کثرت مکالمہ مخاطبہ کا ذکر ہے اور محدث کا یہی درجہ ہوتا ہے اور نبی والے حوالہ میں بکثرت امور غیبیہ کا ذکر ہے اور یہ منصب صرف نبی کا ہے۔ محدث کو یہ مقام حاصل نہیں ہوتا۔
ہم نے مرزاقادیانی کی اپنی تحریرات سے قاضی صاحب کی جوابی بنیاد کو غلط ثابت کر دیا ہے اور مرزاقادیانی کا اقبالی بیان پیش کر دیا ہے کہ محدث کو بھی بکثرت امور غیبیہ کا علم دیا جاتا ہے