قریب تو ہوا لیکن کیا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی ان آیات کی تفسیر ممتاز مفسرین نے حسب ذیل الفاظ میں ارشاد فرمائی ہیں۔
۱… امام رازی فرماتے ہیں: ’’ان اﷲ یقول افعل ہذا بالسماوات والارض والجبال عند وجود ہذہ الکلمۃ غضبا منی علیٰ من تفوہ بہالولا حلمی استعظاماً للکلمۃ وتہویلاً من فضاعتہا‘‘
۲… علامہ ابو السعودؒ فرماتے ہیں: ’’ان ھول تلک الکلمۃ الشنعاء وعظہا بحیث لوتصورت بصورۃ محسوسۃ لم تطق بہا ھاتیک الاجدام العظام وتفتتت من شدتہا وان فضاعتہا فی استجلاب الغضب واستیجاب السخط بحیث لولا حلمہ لحرب العالم‘‘ ۳… تفسیر خازن میں ہے: ’’اے کدت ان افعل ہذا بالسموٰت والارض والجبال عند وجود ہذہ الکلمۃ غضبا منی علیٰ من تفوہ بہا لولا حلمی وانی لا اعجل بالعقوبۃ‘‘
۴… تفسیر بیضاوی میں ہے: ’’والمعنیٰ ان ھول ہذا الکلمۃ وعظمہا بحیث لوتصورت محسوسۃ لم تتحملہا ہذہ الاجرام العظام وتفتتت من شدتہا وان فضاعتہا مجلبۃ لغضب اﷲ بحیث لولا حلمہ لخرب العالم‘‘
تمام مفسرین کے ارشادات کا خلاصہ یہ ہے کہ ان آیات میں اﷲتعالیٰ کے لئے اثبات اولاد کے عقیدہ کی مذمت کی گئی ہے اور کہاگیا ہے کہ یہ عقیدہ اور یہ الفاظ کہ: ’’اتخذ الرحمن ولداً‘‘ اتنے سنگین اور اپنی حقیقت میں اتنے ہولناک ہیں کہ اگر ان کا کوئی وجود تسلیم کر لیا جائے تو آسمان وزمین اور پہاڑ جیسے عظیم اجسام بھی اسے برداشت نہ کر سکیں اور اس کی شدت سے زیر وزبر ہو جائیں۔ نیز اگر اﷲتعالیٰ کا حلم مانع نہ ہو تو وہ ان الفاظ سے ناراض ہوکر نظام عالم کو تہ وبالا کر دے۔
ہم نے مرزائی مجیب کی تاویل بلکہ تحریک کے سلسلہ میں جو بحث کی ہے وہ قواعد عرب کی روشنی میں ہے۔ جس کو سمجھنا اور اس کے آگے سرتسلیم خم کرنا مرزائی جماعت کی فطرت میں نہیں۔ اس لئے ہم مرزائی جماعت پر اتمام حجت کے لئے بطور نمونہ ایک آیت اور ایک حدیث پیش کرتے ہیں۔ جس سے لفظ ’’کاد‘‘ کا صحیح استعمال معلوم ہو سکے گا۔
اوّل… اﷲتعالیٰ توحید کے بیان پر مشرکین عرب کی برہمی کا ذکر ان الفاظ میں