فرماتے ہیں کہ: ’’یکادون یسطون بالذین یتلون علیہم اٰیتنا‘‘ یعنی قریب ہے کہ مشرکین ہماری آیات تلاوت کرنے والوں پر حملہ کر دیں۔
دوم… آنحضرتﷺ فقر کی پریشانی کا بیان ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ: ’’کادا الفقر ان یکون کفراً‘‘ یعنی قریب ہے کہ فقر کفر بن جائے۔
مرزائی دوستو! کیا اس آیت اور حدیث کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کرنا صحیح ہوگا کہ:
اوّل… آخری زمانہ میں قرآنی آیات تلاوت کرنے والوں پر مشرک حملہ آور ہوا کریں گے۔
دوم… آخری زمانہ فقر انسان کو کافر بنا دے گا۔
اس کا جواب آپ یقینا نفی میں دیں گے اور اس آیت اور حدیث کی بناء پر مذکورہ بالا دعویٰ کرنے والے کو ضرور جھوٹا قرار دیں گے۔ بس یہی حال مرزاقادیانی کا ہے۔ تفصیل بالا سے یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کا فرمودہ مضمون قرآن مجید سے ہرگز ثابت نہیں بلکہ ان کا قرآن مجید کی طرف اس مضمون کو منسوب کرنا سفید جھوٹ ہے۔ مرزائی مجیب صاحبان نے جن آیات سے اس مضمون کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ انتہائی غلط ہی نہیں بلکہ تحریف قرآن اور عربی قواعد سے جہالت اور قرآن وحدیث سے ناواقفیت کا بیّن ثبوت ہے۔ کیونکہ:
۱… یہ آیت خاص عیسائیت کے حق میں نہیں بلکہ ان تمام اقوام ومذاہب کے متعلق ہے جو اﷲتعالیٰ کے لئے اولاد کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ جو آغاز اسلام سے صدیوں پہلے سے موجود ہی نہیں بلکہ برسر اقتدار بھی رہے ہیں۔ ۲… ’’تکاد‘‘ فعل مقاربہ پیش گوئی کے لئے نہیں آتا۔ بلکہ صرف اس لئے آتا ہے کہ اسم کا قرب خبر کے لئے ثابت کرے۔
۳… مفسرین عظام کے نزدیک اس آیت میں کسی آئندہ زمانہ کی خبر نہیں دی گئی۔ بلکہ صرف اس عقیدہ کی سنگینی بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اگر اس عقیدہ کی شدت اور گمراہی کو آسمان وزمین اور پہاڑ محسوس کر لیں تو ریزہ ریزہ ہو جائیں۔
۴… تفصیل کے لئے ہماری پیش کردہ مثالوں پر غور فرمائیے کہ ان میں کوئی پیش گوئی نہیں کی گئی بلکہ توحید کے وعظ پر مشرکین کی برہمی اور فقر کی پریشانی کا اظہار کیاگیا ہے۔
۵… آخری زمانہ میں آسمان وزمین کے حوادث کا سبب آنحضرتﷺ نے سنگین بداخلاقی اور بدکرداری کو قرار دیا ہے۔ (مشکوٰۃ باب اشراط الساعۃ)
۶… لاہوری مجیب کی پیش کردہ آیت ’’وانا لجاعلون ما علیہا صعیداً