جس کی شان رسول کریمﷺ نے یہ بیان کی ہے کہ وہ امت ہلاک نہیں ہوسکتی۔ جس کے اوّل میں میں ہوں اور سب سے آخر میں مسیح۔ (پیغام صلح مورخہ ۷؍مئی ۱۹۵۸ء ص۳)
یہ حدیث مل جانے سے ایڈیٹر صاحب کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور بڑھاپے کی خشکی ان الفاظ میں ظاہر ہوتی ہے کہ: ’’حیرت ہے کہ ایسی کھلی حدیث کے ہوتے ہوئے بدوملہی ملا حضرت مسیح موعود کے بیان کو حضرت صاحب کا مقدس جھوٹ قرار دیتا ہے۔ اسے چاہئے کہ سب سے پہلے حضرت علیؓ پر مقدس جھوٹ کا الزام دے کر اپنے فقدان ایمان کا مظاہرہ کرے اور اگر اتنی جرأت نہیں تو اس حدیث کو پڑھ کر اپنی روسیاہی کا اعلان کرے۔‘‘ (پیغام صلح مذکور)
ایڈیٹر صاحب ؎
لگے ہو منہ چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زبان بگڑی تو بگڑی تھی خیر لیجئے دہن بگڑا
ناظرین! ایڈیٹر صاحب کو حدیث کیا ملی بیچارے کا دماغ خراب ہوگیا۔ آپ اس حدیث پر ہمارے اعتراضات ملاحظہ فرمائیے۔ پھر فیصلہ کیجئے کہ مجھے روسیاہی کا اعلان کرنا چاہئے یا ایڈیٹر صاحب کو دماغی امراض کے ہسپتال میں داخلہ لینا چاہئے؟
اوّل… ایڈیٹر صاحب کو اتنی بھی خبر نہیں کہ یہ حدیث کتب شیعہ کی ہے اور ان کی مخاطب اہل سنت ہے۔ ان کا اپنا حال تو یہ ہے کہ قادیانی فریق کی کسی روایت کو تسلیم نہیں کرتے۔ لیکن جب میدان میں آتے ہیں تو شیعہ کی احادیث اہل سنت کے سامنے پیش کرتے ہوئے ذرہ برابر جھجھک محسوس نہیں کرتے اور انہیں مطلقاً احساس نہیں ہوتا کہ اہل سنت اور شیعہ میں اختلاف کی نوعیت کتنی سنگین ہے۔
دوم… پھر ایڈیٹر صاحب کو اتنی بھی خبر نہیں کہ یہ حدیث خود ان کے بنیادی اعتقاد کے خلاف ہے۔ کیونکہ لاہوری مرزائیوں کا عقیدہ ہے کہ خداتعالیٰ ہر صدی کے آغاز میں مجدد بھیجتا رہے گا۔ لیکن یہ حدیث بقول ایڈیٹر صاحب آنحضرتﷺ کے بعد ۱۲مجدد اور سب سے آخر مسیح موعود کا ذکر کرتی اور پھر معاملہ ختم کر دیتی ہے۔
لاہوری دوستو! کیا آئندہ کوئی مجدد نہیں آئے گا؟ اور کیا گذشتہ بارہ صدیوں میں بارہ ہی مجدد ہوئے ہیں یا زیادہ؟ جواب دینے سے پہلے اپنے حضرت صاحب کی مصدقہ کتاب عسل مصفیٰ سے مجددین کی فہرست ضرور ملاحظہ کر لیجئے۔ اگر وہ فہرست صحیح ہے تو یہ حدیث غلط ہے اور اگر یہ حدیث صحیح ہے تو وہ فہرست غلط ہے۔