ہوتا۔ کیونکہ پیش گوئی سے مقصد امتحان ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں صدی تک کا ذکر نہیں ہوتا۔‘‘
(مفہوم حل ہو چکا ص۲۴،۲۵)
جب حسب ارشاد مرزا قادیانی الہامی پیش گوئیوں میں صدی وغیرہ کا ذکر بھی نہیں ہوتا تو پھر اس عربی عبارت کو آنحضرتﷺ کی حدیث کس طرح کہا جاسکتا ہے۔ جس میں صدی چھوڑ ٹھیک ۱۲۴۰ھ کا ذکر بھی موجود ہے۔
سوم… اگر اسے چند منٹ کے لئے حدیث رسول تسلیم کر بھی لیا جائے۔ پھر بھی مرزاقادیانی اس کے مصداق نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس کا مضمون آپ کی تشریح کے مطابق یہ ہے کہ ۱۲۵۰ھ میں امام مہدی مبعوث ہوںگے اور آپ کے اقرار کے مطابق مرزاقادیانی ۱۲۵۰ھ میں مبعوث نہیں بلکہ پیدا ہوئے اور ان کے مبعوث ہونے تک چودھویں صدی کا آغاز ہوچکا تھا۔ نتیجہ صاف ہے کہ مرزاقادیانی اس حدیث کے مطابق کم ازکم ۶۰سال لیٹ آئے۔ حالانکہ ہم اس سے پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ مرزاقادیانی اپنے اقرار کے مطابق قریباً دو سوسال پہلے (یعنی بیفور ٹائم) تشریف لے آئے ہیں۔
قادیانی دوستو! یہ کیا گورکھ دھندا ہے؟
لاہوری ایڈیٹر
لاہوری ایڈیٹر نے اپنے دعویٰ پر حسب ذیل حدیث پیش کی ہے: ’’عن ابی جعفر القمّی ہذا باسنادہ عن علیؓ قال قال رسول اﷲ ابشروا ثلاث مرات انما مثل امتی کمثل غیث لا یدریٰ اولہ خیر ام اخرہ وکیف یہلک امۃ انا اولہا واثنا عشر خلیفۃ من بعدی والمسیح عیسیٰ ابن مریم اٰخرہا (فصل الخطاب امام محمد پارسا ص۷۶۸)‘‘ {ابوجعفر قمی نے اپنی سند سے حضرت علیؓ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے اپنے صحابہؓ کو تین مرتبہ بشارت دے کر فرمایا کہ میری امت کی مثال اس بارش کی ہے جس کی نسبت معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس کا اوّل اچھا ہے یا آخر اور وہ امت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے۔ جس کی ابتداء میں خود ہوں اور میرے بعد بارہ خلیفے اور سب سے آخر مسیح ابن مریم۔}
اس حدیث سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ مسیح موعود کے چودھویں صدی کے سر پر آنے کی خبر رسول اﷲﷺ نے دی ہے۔ بارہ خلفاء جن کا ذکر اس حدیث میں ہے وہی ہیں جن کو دوسری حدیث میں مجدد کا نام دیا گیا ہے اور وہ دوسری صدی ہجری سے لے کر تیرھویں صدی تک آتے رہے۔ ان کے بعد بموجب حدیث چودھویں صدی کے سر پر مسیح موعود کا آنا ثابت ہے۔