کر دیکھ لو۔ تب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون سی بدقسمتی تمہاری انتظار میں ہے۔ لیکن انگریزی حکومت اﷲ کی رحمت اور برکت کا ایک پہلو ہے۔ یہ ایک ایسا قلعہ ہے جو خدا نے تمہارے حفاظت کے لئے تعمیر کیا ہے۔ لہٰذا اپنے دلوں میں روح کی گہرائی میں اس کی قدروقیمت کو تسلیم کرو۔ انگریز تمہارے لئے ان مسلمانوں کے مقابلے میں ہزار درجہ بہتر ہیں جو تم سے اختلاف رکھتے ہیں۔ کیونکہ انگریزی تمہیں ذلیل کرنا نہیں چاہتے نہ ہی وہ تمہیں قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۸۴ ملخص)
اپنی کتاب (تریاق القلوب مورخہ ۲۸؍اکتوبر ۱۹۰۲ئ، ضمیمہ ۳) میں حکومت عالیہ کے حضور میں ایک عاجزانہ التماس کے عنوان سے مرزاقادیانی لکھتا ہے: ’’عرصہ بیس سال سے میں نے دلی سرگرمی کے ساتھ فارسی، عربی، اردو اور انگریزی میں کتابیں شائع کرنا کبھی ترک نہیں کیا۔ جن میں میں نے باربار دہرایا ہے کہ مسلمانوںکا یہ فریضہ ہے کہ خدا کی نظروں میں گنہگار بننے کے خوف سے اس حکومت کی تابعدار اور وفادار رعایا بنیں۔ جہاد میں کوئی حصہ نہ لیں۔ خون کے پیاسے مہدی کا انتظار نہ کریں اور نہ ہی ایسے واہموں پر یقین کریں جنہیں قرآنی ثبوتوں کی تائید کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ میں نے انہیں تنبیہ کی کہ اگر وہ اس غلطی کو رد کرنے سے انکار کرتے ہیں تو کم سے کم یہ تو ان کا فرض ہے کہ اس حکومت کے ناشکر گذار نہ بنیں۔ کیونکہ اس حکومت سے غداری کر کے خدا کی نظروں میں گنہگار نہ بننا ان کا فرض ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۳۶۰، خزائن ج۱۵ ص۴۸۸)
اسی عاجزانہ التماس میں آگے کہا گیا ہے: ’’اب اپنی فیاض طبع حکومت سے پوری جرأت مندی کے ساتھ یہ کہنے کا وقت آگیا ہے کہ گذشتہ بیس سالوں میں میں نے یہ خدمات انجام دی ہیں اور ان کا مقابلہ انگریزی ہندوستان میں کسی بھی مسلم خاندان کی خدمات سے نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ لوگوں کو بیس سال جتنی طویل مدت تک یہ سبق پڑھانے میں ایسا استقلال کسی منافق یا خود غرض انسان کا کام نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہ ایسے انسان کاکام ہے جس کا دل اس حکومت کی سچی وفاداری سے معمور ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۳۶۳، خزائن ج۱۵ ص۴۹۱) پر وہ کہتا ہے: ’’میں حقیقت میں کہتا ہوں اور اس کا دعویٰ کرتا ہوں کہ میں مسلمانوں میں سرکار انگریزی کا رعایا میں سب سے زیادہ تابعدار اور وفادار ہوں۔ کیونکہ تین چیزیں ایسی ہیں جنہوں نے انگریزی حکومت کے تئیں میری وفاداری کو اس درجہ بلندی تک پہنچانے میں میری رہبری کی ہے۔ (۱)میرے والد مرحوم کا اثر۔ (۲)اس فیاض حکومت کی مہربانیاں۔ (۳)خدائی الہام۔‘‘