والے باغی تھے۔ لیکن حضرت علیؓ کی خلافت اس آیت کا مصداق نہیں جس میں امن وامان والی خلافت کی بشارت دی گئی ہے۔
(سرالخلافہ ص۳۰، خزائن ج۸ ص۳۵۲)
مرزاقادیانی کی ان تمام تصریحات کا مطلب صاف ہے کہ اس آیت میں فرمودہ خلافت صرف اور صرف حضرت ابوبکرؓ کی خلافت ہے۔ باقی تین خلفاء کی خلافت بھی اس آیت کا مصداق نہیں۔ مرزاقادیانی کے اس اقبال کے بعد آخر مرزاقادیانی کو اس آیت کریمہ کا مصداق کہا جائے تو کیوں؟
کجا خلافت ابوبکر صدیقؓ جیسی خود مختار اسلامی سلطنت اور کجا مرزاغلام احمد قادیانی کی قادیانی تحریک جس کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ اسلام دشمن انگریز کو ’’اولی الامر منکم‘‘ کا مصداق خیال کرتے ہوئے واجب الاطاعت سمجھو اور ہر آن یہ دعا کرو کہ ؎
تاج وتخت ہند قیصر کو مبارک ہو دوام
ان کی شاہی میں میں پاتا ہوں رفاہ روزگار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۱۴۱)
سچ ہے ؎
ظہور حشر نہ ہو کیونکر کہ کلچڑی گنجی
حضور بلبل بستاں کرے نواسنجی
سوم،۱۴۰۰سال بعد یا چودھویں صدی کے سر پر
اس اصولی بحث کے بعد ضرورت تو نہیں تاہم اتمام حجت کے لئے قادیانی مجیب کے استدلال پر ہمارا نقص (توڑ) ملاحظہ فرمائیے۔ مجیب صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت اقدس (مرزائے قادیان) کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آخری خلیفہ تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قریباً چودہ سو برس بعد ہوئے۔ اس لئے مسیح محمدی کو بھی آنحضرتﷺ کے بعد چودھویں صدی کے سر پر آنا چاہئے۔‘‘ قاضی صاحب نے اس عبارت میں مرزاقادیانی کا حوالہ دیا ہے۔ ہم ناظرین کی آسانی کے لئے (ازالہ اوہام ص۶۹۲، خزائن ج۳